Sunday 26 July 2015

Imam Ahmad Ke Bare Me (Urdu)

اما م احمدرضامحدث بریلوی
کے بارے میں  تاثرات و جذبات
🔸امام احمد رضا خاں محدث بریلوی 10 شوال المکرم 1272 ھ /14جون 1856ء کو بریلی میں پیدا ہوئے۔آپ عہدِ جدید کے عظیم عبقری تھے، جس پر ان کی علمی تحقیقات و تصنیفات شاہد اور زمانہ خود گواہ ہے۔ زمانے نے ان کو جانچا،پرکھا اور پھر آفتاب،ماہتاب بنا دیا۔ ان کی روشنی دور دور تک پھیلی۔ ان کی آواز دور دور پہنچی۔🔸علمائے عرب نے ان کے فضل وکمال کی کھلے دل سے داد دی اور خوب خوب سراہا۔چنانچہ
شیخ عبدالرحمٰن دھان مکی  فرماتے ہیں:-
"وہ جس کے متعلق مکہ معظمہ کے علماے کرام گواہی دے رہے ہیں کہ وہ سرداروں میں یکتا ویگانہ ہے"۔
شیخ عبداللّٰہ نابلسی مدنی فرماتے ہیں:-
"وہ نادر روزگار،اس وقت اور اس زمانے کا نور۔ معزز مشائخ اور فضلا کا سردار، بلا تامل وہ زمانے کا گوہر یکتا"۔
شیخ محمد عارف بن محی الدین ابن احمد فرماتے ہیں:-
" ان کا کلام ان کے کمال علم پر دلالت کرتا ہے"۔
📎اور دمشق ہی کےعلامہ شیخ محمد القاسمی تحریر فرماتے ہیں:-
"فضائل و کمالات کے ایسے جامع ہیں جن کے سامنے بڑے سے بڑا ہیچ ہے،وہ فضل کے باپ اور بیٹے ہیں. ان کی فضیلت کا یقین دشمن و دوست دونوں کو ہے،ان کا علمی مقام بہت بلند ہے،ان کی مثال لوگوں میں بہت کم ہے"۔پاک و ہند کے فضلا و محققین میں ان کی دھوم ہے.چنانچہ
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں صاحب (سندھ یونیورسٹی) فرماتے ہیں:-
"اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمہ اپنے دور کے بے مثل علما میں شمار ہوتے ہیں،ان کے فضل وکمال،ذہانت و فطانت،طبّاعی و درّاکی کے سامنے بڑے بڑے علما، فضلا، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ، محققین اور مستشرقین نظروں میں نہیں جچتے"۔
امام احمد رضاکے فضل وکمال کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت علم کے بھی فضلا و دانش ور قائل نظر آتے ہیں۔چنانچہ
پروفیسر غیاث الدین قریشی (نیو کاسل یونیورسٹی،انگلینڈ) لکھتے ہیں:-
"انہوں نے اپنے وسیع اور عمیق علم کے طفیل اپنی ذات میں ایک اسلامی یونی ورسٹی کی بلندیاں جمع کر لی ہیں"۔
📎عہدِ جدید کے مشہور مصنف مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:-
"مولانا احمد رضاخاں صاحب کے علم وفضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے.فی الواقع وہ علومِ دینی پر بڑی وسیع نظر رکھتے تھے اور ان کی اس فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں"۔
مولانا ابوالحسن علی ندوی (ندوۃ العلماء لکھنو) امام احمد رضا کے ہم خیال نہ ہوتے ہوئے بھی یہ اظہار خیال فرماتے ہیں:-
"جزئیات فقہ پر جو ان کو عبور حاصل تھا،ان کے زمانے میں اس کی نظیر نہیں ملتی"۔
📎اور جسٹس پیر محمد کرم شاہ ازہری (جج سپریم کورٹ آف پاکستان،شریعت بینچ) فرماتے ہیں:-
"علومِ دینیہ،فقہ،حدیث،تفسیر وغیرہ میں آپ کو جو عدیم النظیر مہارت حاصل تھی اس میں تو کسی کو کلام نہیں"۔
📎ہندوستان کا مشہور عالم شہرت یافتہ مجلّہ "معارف" (اعظم گڑھ) فتاویٰ رضویہ اور امام احمد رضا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:-
"دینی علوم خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی.مولانا جس دقتِ نظر اور تحقیق کے ساتھ علما کے استفسارات کے جواب تحریر فرماتے ہیں اس سے ان کی جامعیت،علمی بصیرت، فقہی جز رسی ، استحضار، ذہانت،طبّاعی کا پورا پورا اندازا ہوتا ہے...ان کے عالمانہ اور محققانہ فتاویٰ مخالف و موافق ہر طبقے کے مطالعہ کے لائق ہیں"۔
شیخ ابوالفتاح ابوغدہ (پروفیسر کلیۃالشریعہ محمد بن سعود یونیورسٹی) نے فتاویٰ رضویہ کا صرف ایک عربی فتویٰ مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے،خود فرماتے ہیں:-
"عبارت کی روانی اور کتاب و سنت واحوال سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر میں حیران ہوگیا اور شش در رہ گیا اور اس ایک فتوے کے مطالعہ کے بعد میں نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے"۔
مشہور محقق و قلم کار اور امام احمد رضا کے معاصر مولانا وحید احمد بدایونی نے بڑی دل لگتی بات فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:-
"حضرت مولانا بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم نافع ان کی فقاہت پر منتہی تھا...اسی سے انھیں مقبولیت حاصل ہوئی اور اسی سے ان کا نام زندہ ہے"۔
یہ وہ فضلا ہیں جو دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں...نفس کے اشاروں پر نہیں چلتے...جو روزِ روشن میں آنکھیں بند نہیں رکھتے....وہی کہتے ہیں،جو ان کا دل کہتا ہے۔
سراج الفقہا مولانا سراج احمد(مفتی سراج العلوم،خان پور) امام احمد رضا کے معاصرین میں تھے،ان کے اساتذہ نے ان کو باور کرایا تھا کہ امام احمد رضا کو علم و تحقیق سے کوئی علاقہ نہیں،ان کی کتابیں پڑھنا بے سود ہے لیکن جب سراج الفقہا منصب افتا پر فائز ہوئے اور میراث کے ایک مسئلے میں ان کو الجھن پیش آئی تو مجبوراً انھوں نے امام احمد رضا سے رجوع کیا،امام احمد رضا نے ایسا تشفی بخش جواب عنایت فرمایا کہ سراج الفقہا حیران رہ گئے اور امام احمد رضا کی علمی عظمت کا نقش ان کے دل پر مرتسم ہو گیا...
انھیں ایام میں ان کی ملاقات 📎ایک غیر مقلد عالم مولانا نظام الدین (احمد پور) سے ہو گئی جو ان کے مخلصین میں تھے۔ سراج الفقہا نے امام احمد رضا کا رسالہ "الفضل الموہبی" ان کو دکھایا،تو وہ حیران رہ گئے اور عالم حیرت میں فرمایا:-
🔸"یہ سب منازل فہم حدیث مولانا کو حاصل تھے؟... افسوس کہ میں ان کے زمانے میں رہ کر بے خبر و بے فیض رہا...علامہ شامی اور صاحب فتح القدیر،مولانا کے شاگرد ہیں...یہ تو امام اعظم ثانی معلوم ہوتے ہیں"۔
📎برکلے یونیورسٹی (امریکہ) کے شعبئہ تاریخ کی فاضلہ ڈاکٹر باربرا-ڈی-مٹکاف اپنی کتاب (ہندوستان میں مسلم علماء کی مذہبی قیادت) میں لکھتی ہیں:-
احمد رضا کی نگارشات کا انداز مدلل تھا جس میں بے شمار حوالوں کے ڈھیر ہوتے تھے جس سے ان کی علمی اور عقلی فضیلت کا اندازا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین کی کوتاہیوں کا علم بھی ہوتا ہے"۔
ڈاکٹر محی الدین الوائی (پروفیسر مدینہ یونی ورسٹی) جو مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن حق گو ہیں.وہ امام احمد رضا کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں:-
"جن علماے ہند نے مروجہ علوم عربیہ و دینیہ کی خدمت میں اعلٰی قسم کا حصہ لیا ہے ان میں مولانا احمد رضا خان صاحب کا نام سر فہرست نظر آتا ہے....علوم عربیہ اسلامیہ کو آراستہ کرنے میں اپ کا بہترین ریکارڈ ہے"۔
حوالہ جات:-
 رئیس الفقہاء امام احمد رضا محدث بریلوی از:-پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد  نقشبندی
یاد گار رضا 2012-2013
رضا اکیڈمی-ممبئی
شوال  جشن یوم رضا مبارک
اخذ کردہ:- محمد سبطین رضا

Aala Hazrat Kya the ???

امام احمد رضا خان القادری
 ایک  مظلوم شخصیت
مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان قدس سرہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے بر صغیر کے صوفی سنی  جماعت کے لوگ "مجدد دین و ملت " کے نام سے یاد کرتے ہیں تو دوسری طرف غیر صوفی  جماعت کے لوگ" بانی بریلوی جماعت" کے نام سے جانتے ہیں اور عرب ممالک بلخصوص خلیجی ممالک میں اسی نام سے تعارف کروایا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے اور آگے بڑھتے ہوئے "قادیانی، شیعہ اور قبر پرستوں کا امام قرار دے دیا  اور کافی اس کا پرچار بهی کیا  گیا اور برصغیر میں کچھ مزارات پر شیعوں کا قبضہ اور آخر میں"  رضا " لکهنے اور اہل بیت سے محبت کی وجہ سے شیعہ قرار دے دیا گیا اور فاضل بریلوی کے استاد "مرزا غلام قادر بیگ مرحوم" کو مرتد مرزا غلام احمد قادیانی کا نام دے کر  قادیانی قرار دے دیا گیا ، اور مزارات پر خلاف شرع خرافات و بدعات کو ان کی طرف منسوب کر کے بدعات و خرافات کا بانی اور مجدد کا نام دیا گیا اور یہ سب چیزیں موقع اور محل کے مطابق استعمال کی گئیں مثلاً عرب صوفی مشائخ کے سامنے ان کو "شیعی اور قادیانی" اور غیر صوفی مسلمانوں کے سامنے بدعتی کا نام دیا گیا اور اس پر درجنوں عربی اور انگریزی زبانوں میں کتابیں لکھوائی گئیں ....... اور کافی مشہور کیا گیا اور اب ان الزامات کے کے تعلق سے تصویر کا دوسرا رخ دیکهیں کہ یہی امام احمد رضا خان  قادیانی ، شیعی اور بدعتی  اپنی ہی جماعت کے خلاف ہنگامہ کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے:
قادیانیت کے خلاف کچھ کتابیں ملاحظہ کریں:
1-السوء و العقاب علی المسیح الکذاب
2- قهر الديان على مرتد بقاديان
3- الجراز الدياني علي المرتد القادياني
4 -الصوارم الهندية  وغیرہ
احمد رضا خان صاحب قادیانی ہیں پھر بھی قادیانیت اور احمدیت کے خلاف کتابیں لکھ کر ہیں! !!! !
شیعہ کے خلاف کچھ کتابیں ملاحظہ کریں:
1-الزلال الانقي من بحر سبقة الاتقي  (في أفضلية الصديق)
2- رد الرافضة ..
3- المستند المعتمد بناء الأبد
4- فتاوی الحرمين لرجف ندوة المين
5- المقالة المسفرة في أحكام البدعة
6-إعلام الأعلام بأن هندوستان دارالاسلام
7-تمهيد الإيمان
8- الأدلة الطاعنة في آذان الملاعنة
9- اعالي الإفادة في تعزية الهند و بيان الشهادة
10- بدر الأنوار في آداب الآثار .....
فاضل بریلوی شیعہ تهے پهر بهی شیعہ کے خلاف دسیوں کتابیں لکھ رہے ہیں اور زور دار طریقے سے رد رافضیت کے حوالے سے دھماکہ کر رہے ہیں! !!

قبر پستوں کے امام اور پیشوا تهے اور بدعات و خرافات کے بانی تھے  اور خود  اپنے گھر کو منہدم کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں:
1- مقال عرفاء باعزاز شرع و علماء.
2- الیاقوتة الوسطة قلب عقد الرابطة
3- الوظيفة الكريمة او الوظيفة القادرية
4- الزبدة ا الزكية لتحريم السجود التحية
5- نقابة السلاقة في أحكام البيعة والخلافة
فاضل بریلوی بدعات و خرافات اور قبر پرستوں کے امام و پیشوا تهے پهر بهی مزارات اور تصوف میں خرافات و بدعات اور خلاف شرع کاموں کے خلاف کتابیں لکهتے ہوئے نظر آ رہے ہیں !!!!
تعجب بالائے تعجب ہے کہ جو خود بانی اور معمار ہوں پهر اس کے خلاف کتابیں لکھ رہے ہیں یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے .. ضرور کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے. .صرف انہیں کی بات نہیں ہے بلکہ بہت سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے گزرے ہیں اور کچھ ہیں جن پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں تاکہ شخصیت مشکوک ہو جائے کچھ اپنوں نے کچھ غیروں نے دونوں نے مل کر گل کهلایا ہے رہی بات فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی تو  وہ ناشر اہل سنت و جماعت تهے نہ وہ قادیانی تهے نہ وہ شیعی تهے بلکہ سنی صحیح العقیدہ قادری نوری برکاتی صوفی عالم و مفتی پابند شرع تهے  جو باتیں صحیح تهیں لکهتے تهے کسی سے ڈرتے نہیں تهے۔
اس لئے جس بهی مسلک اور فرقے کے خلاف کتابیں لکھی گئیں ہیں ان کو دیانتداری کے ساتھ پڑهیں اور فوری طور پر تسلیم نہ کر لیں بلکہ صحیح طریقے سے جانچ پڑتال کرکے یقین کریں. .... کیونکہ اس دنیا میں سب کچھ ہونے لگا ہے! !!!!
ان شاءالله بندہ ناچیز کی ایک عربی زبان میں دو سو صفحات پر مشتمل "الامام احمد رضا خان القادری و الفرق الضالة" کے نام سےجلدی منظر عام پر آ رہی ہے. ... . جس میں مندرجہ ذیل مباحث ہیں:
1-حياة الإمام أحمد رضا خان القادري.
2- الامام احمد رضا خان القادری و دوره في الرد على القاديانية. .
3- الامام احمد رضا خان القادری و دوره في الرد علي الشيعة ..
4- موقف الإمام أحمد رضا القادری من التصوف
5- الخاتمة و النتائج. ...
محمد عباس مصباحی / ازہر شریف قاہرہ مصر

Saturday 25 July 2015

Barelvi Ya Ahle Sunnat ??? (Urdu)


اہلنست و جماعت کون؟؟؟
ایک پاکستانی صحافی کے قلم سے
جنوبی ایشیا میں عقیدے کے لحاظ سے ابتدائی اہل سنت وجماعت سنی مسلمانوں کو جدید دور میں بریلوی کہا جاتا ہے۔ انگریزی وکیپیڈیا کے مطابق ان کی 200 ملین سے زائد ہے۔ انگریزی وکیپیڈیا کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہےاسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن ، ٹائم اور واشنگٹن پوسٹ کے اندازے کے مطابق اسی طرح کی اکثریت پاکستان میں ہے۔سیاسیات کے ماہر روہن بیدی کےتخمینہ کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں میں سے 60 فیصد بریلوی ہیں جبکہ معروف کالم نگار جناب اوریا مقبول جان کے نزدیک پاکستان کے 80 تا90 فی صد مسلمان بریلوی ہیں، برطانیہ میں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن )مسلمانوں(  کی اکثریت بریلوی ہے، جو دیہات سے آئے ہیں۔ لفظ بریلوی اہل سنت و جماعت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے ایک اصطلاح (پہچان) ہے۔ اس کی وجہ 1856ء مطابق 1272 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک عالم دین کا علمی کام ہے ان کا نام مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ تھا وہ بھارت  (ہند) کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک شہر بریلی کے رہنے والے تھے1921ء مطابق 1340 ہجری میں ان کا نتقال ہوابریلی ان کا آبائی شہر تھا۔ انہیں امامِ اہل سنت اور اعلیٰ حضرت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے اکثریتی مسلم علماء کی نظر میں وہ چودھویں صدی کے ابتدائی دور کے مجدد تھے انہیں مجدد دین و ملت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کی بین الاقوامی اکثریت اہل سنت وجماعت کو بریلوی کے عنوان سے جانتے ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے جو پرانے اسلامی عقائد پر سختی سے قائم ہے اور مغربی مستشرقین کے بنائے ہوئے جدید شرپسند اورفتنہ پرور فرقوں کے خلاف پرسرِ پیکار رہتی ہےاہل سنت بریلوی جماعت پرانے دور کے بزرگ صوفیاء اور اولیاء کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہے اور جنوبی ایشیا میں صدیوں پہلے سے موجود سنی اکثریت کی نمائندہ ہے البتہ پچھلے چند برسوں سے چند جدید فرقوں کے پروپیگنڈے سے اہل سنت و جماعت کو بریلوی جماعت یا بریلوی مسلک کہا جاتا ہے حالانکہ اپنے عقائد اور طرز عمل میں یہ قدیم اہل سنت و جماعت کی نمائندہ ہے۔ ان کے عقائد قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح (ثابت) ہیں۔ ان کے عقائد کی بنیاد توحید باری تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی نبوت پر کامل ایمان، تمام نبیوں اور رسولوں پر یقین، فرشتوں پر،عالَم برزخ پر،آخرت پر، جنت اور دوزخ پر، حیات بعد از موت پر، تقدیر من جانب اللہ پراور عالَم امر اور عالَم خلق پر ہے۔ وہ ان تمام ضروریات دین اور بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں جن پر شروع سے اہل اسلام، اہل سنت و جماعت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ فقہی لحاظ سے وہ چاروں اماموں کے ماننے والوں کو اہل سنت وجماعت ہی سمجھتے ہیں۔ وہ ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے باہمی علمی تحقیقی اجتہادی اختلاف کو باعث برکت اور رحمت سمجھتے ہیں اور چاروں مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے ماننے والے راسخ العقیدہ لوگوں کو اہل سنت وجماعت سمجھتے ہیں چاہے ان میں سے کوئی اشعری ہو یا ماتریدی مسلک کا قائل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تصوف کے چاروں سلسلوں کے تمام بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے معتقد ہیں۔ صدیوں سےاہل سنت وجماعت لوگ قادری ، چشتی ، سہروردی یا نقشبندی سلسلوں سے وابستہ رہے ہیں اور ان سلسلوں میں اپنے پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں اب بیسویں صدی کے اختتام سے منہ زور میڈیا کے بل بوتے پر ان سب سلاسل کو بریلوی مکتبہ فکر کی شاخیں بتایا جا رہا ہے۔ شاید مغربی میڈیا اور اس کے پروردہ لوگ ہندو پاک سے باہر دنیائے اسلام کو کوئی غلط تاثر دینا چاہتے ہیں اور اہلسنت والجماعت کے نام پر چھوٹی چھوٹی فرقہ ورانہ دہشت گرد جماعتیں بنا کر فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں افریقہ کے مسلم ممالک بھی اس قسم کی سازشوں کی زد میں ہیں جیسا کہ صومالیہ وغیرہ۔مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے آئے ہیں اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، سن 2012 ء میں جب عالم مغرب خصوصاً امریکی انتظامیہ کی درپردہ حمایت میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی تو ملک مصر سے شروع ہونے والا احتجاج پوری دنیا میں پھیل گیا خصوصاً مسلم ممالک نے اس کا شدت سے رد کیا۔ پاکستان چالیس سے زائد اہل سنت وجماعت بریلوی تحریکوں کے ایک اتحاد نے ایک ہی وقت میں فلم کے خلاف احتجاج کیا اور اس فلم کی شدید مذمت کی۔ اسی جذبہ حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت اہل سنت بریلوی کثرت سے درود پاک پڑھتے ہیں، ان کی ایک پہچان الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلیٰ آلک واصحابک یا حبیب اللہ پڑھنا ہے اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کسی قسم کے نازیبا الفاظ سننے یا کہنے کے قائل نہیں ہیں اس معاملے میں وہ انتہائی حساس پائے گئے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ عزوجل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اس کے لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مستند حدیث کا علمی حوالہ بھی دیتے ہیں۔ وہ اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لحاظ سے آخری نبی اور آخری رسول مانتے ہیں وہ عیسیٰ علیہ السلام کے ایک امتی کے طور پر لوٹ آنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء کرام علیھم السلام کی ارواح ظاہری موت کے بعد پہلے سے برتر مقام پر ہیں اور وہ ان کوعام لوگوں سے افضل مانتے ہوئے زندہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہوا ہے اور وہ نزدیک و دور سے دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اہل سنت وجماعت بریلوی کے نزدیک اللہ عزوجل نے انبیاء کرام علیھم السلام کو بہت سے اختیارات دے رکھے ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا وغیرہ۔اہل سنت وجماعت بریلوی اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سالگرہ بارہ ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی کے عوامی جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ وہ اللہ کے نیک بندوں کی تعظیم کرتے ہیں اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں ان کے لیے ایصال ثواب کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے اعلیٰ مرتبے کے قائل ہیں ان کے نزدیک اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہ رہے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔ اور ان کے لیے آخرت میں جو مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے۔ چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔ انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں۔ اہل سنت وجماعت ان بزرگوں سے دعا کرانے کے قائل ہیں اور ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک اگر اللہ چاہے تو یہ مقدس ہستیاں مدد بھی فرما سکتی ہیں ان کے نزدیک اپنے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب، اہل بیت کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور نیک مسلمانوں کےمزارات پر حاضری دینا کتاب و سنت کی تعلیمات کےعین مطابق ہے۔ لیکن وہ ان میں سے کسی بھی مزار، دربار یا قبر کی عبادت کفرسمجھتے ہیں اور ان کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام جانتے ہیں۔ اہل سنت بریلوی جماعت کے نزدیک مرد حضرات کا ایک مٹھی تک داڑھی رکھنا ضروری ہے اس کا تارک گنہگار ہے۔ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ الرحمان نے 1904 میں جامعہ منظر اسلام بریلی شریف قائم کیاان کے علمی کام کا پاکستان میں بہت چرچا ہے۔ ان کی تحریک پاکستان کے قیام عمل میں آنے سے قبل کام کررہی تھی بنیادی طور پر یہ تحریک جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے دفاع کے لئے قائم کی گئی تھی عقائد کے دفاع کے لئےاہل سنت بریلوی جماعت نے مختلف باطل مکاتب فکر اور تحریکوں کا تعاقب کیا اور ان کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ دیگر تحریکوں کے برعکس خطے میں سب سے زیادہ اہل سنت بریلوی جماعت نے گاندھی کاساتھ نہ دیا اور اس ہندو لیڈر کی سربراہی میں تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا وہ تمام ہر قسم کے کافرو مشرک کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتے رہے۔ اہل سنت بریلوی جماعت تحریک آزادي کے بنیادی حامی تھے اس کے قیام کے لیے انہوں نے بہت جدوجہد کی۔

Wednesday 22 July 2015

Mazaraat Ki Ziyarat Karna

درگاہوں اور مزاروں
 پر  ہونے والی خرافات

اکثر مخالفین لوگ اللہ والوں کے مزاروں پر ہونے والی خرافات کو حضور سیدنا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے علمائے اہلسنت و جماعت کی طرف جوڑ تے ہیں ۔جبکہ حقیقت یہ کہ اللہ والوں کے مزاروں اور آستانوں پر ہونے والی خرافات اور عجیب عجیب حرکتوں کا  اہلسنت و جماعت (مسلک اعلیٰ حضرت) سے کو ئی تعلق نہیں ہے  بلکہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ  اور دوسرے علمائے اہلسنت و جماعت نے اپنی اپنی کتابوں میں ان کا بھر پور رد فرمایا ہے۔

عورتوں کا درگاہ پر جانا
عورتوں اور جوان لڑکیوں کا حضور ﷺ کے مبارک آستانے کے سوا کسی بھی مزار اور درگا ہ پر جانا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد9 صفحہ 541)

مزاروں کا طواف کرنا
مزاروں کا طواف (چکر) اگر تعظیم ( بَرائی ظاہر کرنے) کی نیت سے کیا جائے تو ناجائز ہے کیونکہ طواف کے ساتھ تعظیم صرف کعبہ شریف کے ساتھ خاص ہے، اور مزار کو چومنا بھی ادب کے خلاف ہے، آس پاس کی اونچی لکڑی یا دونوں طرف کے چوکھٹ کو چوم سکتے ہیں ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 9صفحہ 529)

نیاز کا کھانا لُٹانا
نیاز کا کھانا لٹانا (پھینک کر دینا) حرام ہے ، کھانے کا اس طرح سے لٹانا (پھینکنا) بے ادبی ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد 24صفحہ 112)

 سر جھکانا  یا رکوع کی حد تک جھکنا
عبادت کا سجدہ(سرجھکانا  یا رکوع کی حد تک جھکنا) اللہ کے سوا کسی کو بھی کرنا شرک ہے اور تعظیم والا سجدہ مزاروں کو ہو یا پیر کو یا کسی اور کو ،حرام ہے ( فتاوی ٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 426)

پیڑ ، دیوار یاتاک پر فاتحہ دلانا
لوگوں کا کہنا ہے کہ فلاں پیڑ پر شہید (یاکوئی بزرگ) رہتے ہیں اور اس پیڑیا دیوار یا تاک کے پاس جاکر مٹھائی ، چاول (یا کسی چیز)   پر فاتحہ دلانا ، ہار پھول ڈالنا ، لوبان یا اگربتی جلانا اور منتیں ماننا ، مرادیں مانگنا یہ سب باتیں واہیات ، بیکار ، خرافات اور جاہلوں والی بے وقوفیاں اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ (احکام شریعت حصہ 1 صفحہ22)

کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری یا سواری آنا
اسی طرح یہ سمجھنا کہ فلاں آدمی یا عورت پر کسی بزرگ یا شہید یا ولی کی حاضری ہوتی یا سواری آتی ہے یہ بھی فضول  اور جاہلوں کی گڑھی ہوئی بات ہے کسی انسان کے کسی بھی طرح سے مرنے کے بعد اسکی روح کسی انسان یا کسی چیز میں نہیں آسکتی ، جو جنتی ہیں ان کو اس طرح کی ضرورت نہیں اور جو جہنمی ہیں وہ آ نہیں سکتے، جنات اور شیطان ضرور کسی چیز یا کسی جانوریا کسی انسان کے جسم کو گمراں کرنے کے لیے آ سکتے ہیں ۔ ہمزاد بھی شیطان جنات میں سے ہوتا ہےجو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہےزندگی بھر اسکے ساتھ رہتا  ہے اور اس انسان کے مرنے کے بعد یا زندگی میں ہی کسی بچے یا بڑے کے جسم میں گھس کراسکی زبان بولتا ہے ، اسی کو جاہل مسلمان دوسرا جنم اور پچھلے جنم کی بات سمجھ لیتے ہیں۔

مزار پر چادر چڑھانا
مزار پرجب چادر موجود ہو  خراب نہ ہوئی ہو بدلنے کی حاجت نہیں تو چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں  اللہ کے ولی کو ایصال ثواب کرنے کے لئے کسی محتاج کو دیں ۔ ( احکام شریعت ٖحصہ اول صفحہ42)
آج ہم چادر چڑھانے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور ڈھول تاشے کے ساتھ چادر لے کر جاتے ہیں یہ غیر شرعی اور غلط طریقہ  ہے ۔اس طرح کے رواجوں  کا اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

مزار پر حاضری کا طریقہ
فرمانِ سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ :
 زیارت قبر میت کے مواجہ میں کھڑے ہوکر اوراس طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئےکہ سر اٹھاکر دیکھنا پڑے۔ سلام و ایصال ثواب کے لیے اگر دیر کرنا چاہتا ہے رُو بقبر بیٹھ ھائے اور پڑھتا رہے یا ولی کا مزار ہے تو اس سے فیض لے –واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 535)
مزار پر دعا کا طریقہ
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بعد زائر صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرے اور اپنا جائز مقصد پیش کرے پھر سلام کرتا ہوا واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے۔ طواف باالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد 9 صٖفحہ 522)
مزار شریف یا قبر پر پھولوں کی چادر ڈالنے میں شرعاً  حرج نہیں بلکہ نہایت  ہی اچھا طریقہ ہے۔

فائدہ
قبروں پر پھول ڈالنا کہ جب تک وہ تَر رہے گا تسبیح کریں گے اس سے میت سے کا دل بہلتا ہے اور رحمت اتر تی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ قبروں پر پھولوں کا رکھنا اچھا ہے ۔
دیگر حوالہ جات یہ ہے......
فتاویٰ ہندیہ جلد5 صفحہ 351،
فتاویٰ امام قاضی خاں
امداد المفتاح
ردالمختار جلد 1صفحہ 606
فتاویٰ رضویہ  جلد 9 صفحہ 105

اللہ جل جلالہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے یعنی انبیاء ، شہداء،صدیقین، صالحین ور اولیاء کرام کے راستے پر چلائے اور شریعت کا پابند بنائے۔ آمین


فاتحہ سلطان الاولیا ء محبوب یزانی و عبدالرزاق نورالعینقدس سرہ
بروح اقدس حضرت سلطان الاولیاء   درۃ تاج الاصفیاء عمدۃ الکاملین زندۃ الواصلین، عین عیون محققین، وارث علوم انبیاءو مرسلین،کان عرفان، جان ایمان، منبائے خاندان چشتیہ، منشائے دودمان بہشتیہ، تارک المملکۃ و الکونین ، مرشد الثقلین،اولاد حسین شہید کربلا ، رنوردیدہ فاطمہ زہرا، جگرگوشہءعلی مرتضےٰ، نبیرہ حضرت محمد مصطفے، سالک طرق طریقت ، مالک ملک حقیقت ، مقتدائے اولیاء روزگار ، پیشوائے اصفیاء کبار، صدر بارگار کرامت مقتدائے کنتم خیر امۃ اخرجت واقف رموز حقائق الہی، کاشف وقائق لا متناہی ، سیمرغ قاف قطع علائق ،شہباز فضائے حقائق، شمع شبستان ہدایت ، مہر انور اوج ولایت ، ملاذ ارباب شوق و عرفاں، معاذ اصحاب ذوق وجداں ، مقتدیٰ الانام، شیخ الاسلام، حافظ قراءت سبعہ جہاں گست حدود اربعہ، مقیم سراوقات جلال مہبط تجلیات جمال الذی من اقتدی بہ فقد اھتدی ومن خالف فقد ضل و غویٰ متابعوۃ سالکون و مخالوۃ ھالکون وھو الواقففی مقام القطبیۃ و المتمکن فی مرام الغوثیہ،مظہر صفات ربانی، مورد الطاف سبحانی حضرت شاہ مردان ثانی مخاطب بہ خطاب محبوب یزدانی، سیدنا و مولانا و شفاء صدورنا و طیب قلوبنا مقتدائے اولیاء کثیر حضرت امیر کبیر مخدوم سلطان سید اشرف جہانیاں جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی النورانی سرہ العزیزو بروح اقدس حضرت قدوۃ الابرار عمدۃ الاخیار سروگلستاں حسنی الحسینی ، نہال بوستاں بنی المدنی نوردیدہ حضرت محبوب سبحانی سرور سینہ سید عبدالقادر جیلانی، مظہر اسرار اشرفی ، منظر انظار شگرفی حاجی الحرمین الشریفین، مخاطب بہ خطاب نورالعین، زبدۃ الآفاق مرضی الاخلاق مہبط انوار مشیخت علی الاطلاق حضرت سید عبدالرزاق نورالعین رضی اللہ عنہ مع جمیع خلفاء و مریداں یکبار فاتحہ و سہ بار اخلاص با صلوات بخوانید۔

درود شریف یہ ہے
اللھم صلی و سلم علی سیدنا محمد و علی ال سید نا محمد
 کما تحب و ترضیٰ بان تصلی علیہ  ﷺ

استغفار اولیاء
استغفراللہ ربی من کل جمیع ما کرہ اللہ
قولا فعلا سمعا ناظرا ولا حول ولا قوۃ اللہ با اللہ العلی العظیم
روزانہ سو بار پڑھنے والا چند سالوں کے بعد گناہوں سے محفوظ فرما لیا جاتا ہے۔

استغفار ملائکہ
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم و بحمدہ استغفر اللہ
روزانہ سو بار پڑھنے والا رزق وسیع پاتا ہے۔

دو سجدوں کے درمیان کی دعائیں
رب اغفرلی، رب اغفرلی، رب اغفرلی (سنن  ابی داؤد)
اے میرے رب ! مجھے معاف کردے، اے میرے رب !  مجھے معاف کردے،اے میرے رب!  مجھے معاف کردے۔

اللھم اغفرلی وارحمنی واھدنی واجبرنی و عافنی و ارزرقنی وارفعنی
اے اللہ عزوجل! مجھے معاف کردے، مجھ پر رحم فرما،مجھے ہدایت دے، میرے نقصان پورے کردے، مجھے عافیت دے، مجھے رزق دےاور مجھے بلند ی عطا فرما۔(سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

درود  شریف
اللهم صلى على سيدناومولانامحمدوسيدناادم وسيدنانوح وسيدناإبراهيم وسيدناموسى وسيدناعيسى وما بينهم من النبيين والمرسلين صلوات الله و سلامه عليهم اجمعين اللهم صلى على سيدناجبرائيل وسيدناميكائيل وسيدنا إسرافيل وسيدناعزرائيل و حملة العرش و على الملائكةوالمقربين وعلى جميع الانبياء والمرسلين صلوات الله و سلامه عليهم اجمعين