Tuesday 30 June 2015

Fazail Durood Sharif


سوال نمبر 1: درود شریف پڑھنے کا ثبوت قرآن میں ہے یا حدیث میں؟
جواب :احادیث کریمہ تو اس باب میں بکثرت مروی ہیں اور قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
ان اللہ وملٰٓئکتہٗ یصلون علی النبی
یآ یھا الذین اٰمنو ا صلو ا علیہ وسلمو ا تسلیماo
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔
اس آیتِ کریمہ نے واضح طور پر صاف صاف یہ بات بیان فرمائی کہ:
۱۔ درود شریف تمام احکام سے افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی حکم میں اپنا اور اپنے فرشتوں کا ذکر نہ فرمایا کہ ہم بھی کرتے ہیں، تم بھی کرو، سوا درود شریف کے،
۲۔ تمام فرشتے بلاتخصیص حضور پر درود بھیجتے ہیں۔
۳۔ اس حکم کے مخاطب صرف اہل ایمان ہیں۔
۴۔ رب عزوجل کا یہ حکم مطلق ہے، اس میں کوئی استثناء نہیں کہ فلاں وقت پڑھو فلاں وقت نہ پڑھو۔
۵۔ درود شریف جب بھی پڑھا جائے اسی حکم کی تعمیل  میں ہوگا۔
۶۔ ہر بار درود شریف پڑھنے میں ادائے فرض کا ثواب ملتا ہے کہ سب اسی فرضِ مطلق کے تحت میں داخل ہے، تو جتنا بھی پڑھیں گے، فرض ہی میں شامل ہوگا ۔
نظیرؔ اس کی تلاوتِ قرآنِ کریم ہے کہ ویسے تو ایک ہی آیت فرض ہے اور اگر ایک رکعت میں سارا قرآن عظیم تلاوت کرے تو سب فرض ہی میں داخل ہوگا اور فرض ہی کا ثواب ملے گا اور سب  فاقرء واما تیسر من القراٰن کے اطلاق میں ہے۔
۷۔ درود شریف مکمل وہ ہے جس میں صلوٰۃ وسلام دونوں ہوں کہ آیت میں درود سلام دونوں ہی کے پڑھنے کا حکم ہے۔
۸۔ قرآن نے کوئی صیغہ خاص درود شریف کا مقرر نہ کیا تو ہر وہ صیغۂ درود شریف پڑھنا جائز ہے جو درود سلام دونوں کا جامع ہو۔
۹۔ آیت میں درود شریف پڑھنے کے لیے کوئی  ہئت ، کوئی مجلس، کوئی محفل معتین نہیں کی تو کھڑے بیٹھے، تنہائی میں اور مجمع کے ساتھ آہستہ خواہ بلند آواز سے پڑھنا جائز مستحب اور مطلوبِ شرعی ہے۔
۱۰۔ ولادتِ شریفہ کی محفلوں میں اہلِ محبت جو کھڑے ہو کر بیک زبان صلوٰۃ وسلام کے تحفے بارگاہِ نبوی میں پیش کرتے ہیں وہ بھی اس حکم مطلق کی تعمیل میں داخل ہیں، اس سے انکار کرنا نئی شریعت گھڑنا ہے۔
سوال نمبر 2: درود شریف کا مطلب کیا ہے؟
جواب :درود شریف، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم اور عزت افزائی ہے۔ علمائے کرام نے اللھم صل علیٰ محمدکے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ یا رب ! محمدِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت عطا فرما، دنیا میں آپ کا دین سر بلند اور آپ کی دعوت غالب فرما کر ان کی شریعت کو فروغ اور بقاء عنایت کرکے اور آخرت میں ان کی شفاعت قبول فرما کر ان کا ثواب زیادہ کرکے اور اولین و آخرین پر ان کی افضلیت کا اظہار فرما کر اور انبیاء و مرسلین و ملائکہ اور تمام خلق پر ان کی شان بلند کرکے اور آپ کو مقام محمود تک پہنچا کر (ﷺ)۔
سوال نمبر 3: درود شریف میں حکمت کیا ہے؟
جواب :ہر مسلمان جانتا ہے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ، دولتِ ایمان و عرفان نصیب ہوئی، دنیا جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی، حضور نے علم کی روشنی سے دل و دماغ منور و روشن فرمایا، دنیا وحشت و حیوانیت میں مبتلا تھی، حضور نے بہترین انسانی زیور یعنی اخلاقِ حسنہ سے آراستہ کیا اس لیے اس احسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے ہور ہیں، آپ کے ذکر میں ہمہ تن مصروف رہیں اور آپ کے گرویدہ بن جائیں اور زیادہ سے زیادہ آپ کے ساتھ نیا زمندانہ تعلق رکھیں اور آپ کے منصبِ رفیع میں روز افزوں ترقی کے لیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے رہیں، اور یہ مقصود درود شریف سے بھی حاصل ہوتا ہے اور آسانی اس میں یہ ہے کہ ہر آن ہر حال میں پڑجاسکتا ہے، آخر درود شریف پڑھنے والا یہی تو عرض کرتا ہے کہ الٰہی تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بے پایاں احسانات کا بدلہ، ہمارا کیا منہ ہے کہ ادا کر سکیں، الٰہی تو ہی ان کے ان عظیم احسانات کے صلہ میں ہماری جانب سے دنیا وآخرت میں ان پر کثیر در کثیر رحمتیں نازل فرما اور دارین میں انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب نصیب کر۔
جو شخص درود شریف پڑھتا ہے وہ گویا رب کریم کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خد یا تیرے محبوبِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور ان کے طفیل مجھے بھی مزید رحمتوںسے بہر مند کر۔
سوال نمبر 4: درود شریف کا پڑھنا کب فرض ہے اور کہاں واجب؟
جواب :عمر بھی میں ایک بار درود شریف پڑھنا فرض ہے اور ہر جلسہ میں ذکر میں درود شریف پڑھنا واجب ، خواہ خود نام اقدس لے یا دوسرے سے سنے اور اگر مجلس میں مثلاً سو بار ذکر مبارک آئے تو ہر بار درود شریف پڑھنا چاہیے، اگر نامِ اقدس لیا یا سنا اور درود شریف اس وقت نہ پڑھا تو کسی دوسرے وقت اس کے بدلہ کا پڑھ لے۔ (درِمختار وغیرہ)
سوال نمبر 5: کہاں کہاں درود شریف پڑھنا مستحب ہے؟
جواب :جہاں تک بھی ممکن ہو درود شریف پڑھنا مستحب ہے ، ترمذی شریف میں ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں عرض کی یا رسول اللہ میں بکثرت دعا مانگتا ہوں تو اس میں سے حضور پر درود کے لیے کتنا وقت مقررکروں فرمایا جو تم چاہو عرض کی چوتھائی، فرمایا جو تم چاہواور اگر اور زیادہ کر و تو تمہارے لیے بھلائی ہے میں نے عرض کی دو تہائی ، فرمایا جو تم چاہو، اگر اور زیادہ کر و تو تمہارے لیے بہتری ہے، میں نے عرض کی تو کل درود ہی کے لیے مقرر کرلوں، فرمایا ایسا تو اللہ تمہارے کاموں کی کفایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
اور بے شک درود ، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا ہے اور اس کے جس قدر فائدے اور برکتیں درود پڑھنے والے کو حاصل ہوتی ہیں، ہر گز ہرگز اپنے لیے دعا میں نہیں بلکہ ان کے لیے دعا ساری امت کے لیے دعا ہے کہ سب انہیں کے دامنِ سے وابستہ ہیں۔
سلامتِ ہمہ آفاق درسلامتِ تُست
اور قاعدے کی بات ہے جو جسے زیادہ عزیز رکھتا ہے اسی کا ذکر اسے وظیفہ ہو جاتا ہے جو جسے چاہتا ہے اسی کے ذکر کی کثرت کرتا ہے ، پھر حضور کے ذکر کے سامنے اور کسی کے ذکر کا کیا ذکر،
ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو
نمکین حسن  والا  ہمارا  نبی (ﷺ)
پھر بھی خصوصیت سے علمائے کرام نے مندرجہ ذیل مواقع پر درود شریف پڑھنا مستحب فرمایا ہے:
روزِ جمعہ: شبِ جمعہ، صبح، شام، مسجد میں جاتے وقت، مسجد سے نکلتے وقت، بوقتِ زیارتِ روضۂ اطہر، صفا و مروہ پر، خطبہ میں (امام کے لیے) جواب اذان کے بعد، اجتماع وفراق کے وقت، وضو کرتے وقت، جب کوئی چیز بھول جائے اس وقت ، وعظ کہنے اور پڑھنے اور پڑھانے کے وقت خصوصاً حدیث شریف کے اوّل و آخر، سوال و فتویٰ لکھتے وقت تصنیف کے وقت، نکاح اور منگنی کے وقت او ر جب کوئی بڑا کام کرنا ہو۔ (درمختار، ردالمحتار)
سوال نمبر 6: اذان و اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :اذانِ یا اقامت سے پہلے درود شریف پڑھنے میں حرج نہیں کہ ہر اہم کام سے پہلے پڑھنا مستحب ہے اور یہ بھی دینی امور میں بڑی اہمیت کا مقام ہے مگر درود شریف اور اذان واقامت میں کچھ معمولی فصل چاہیے یا درود شریف کی آواز اور اذان واقامت کی آواز میں اتنا فرق و امتیاز رکھیں کہ عوام کو درود شریف اذان یا اقامت کا کوئی حصہ معلو م نہ ہو۔
آجکل اذان و اقامت سے انکار کرنے والا یا تو نرا وہابی ہے یا وہابیہ سے سنی سنائی بات منہ سے نکالنے والا جاہل و ناواقف مسلمان، مسلمان کو سمجھا دیں، وہ سمجھ جائے گا لیکن وہابیہ کی اوندھی مت اسے قبول نہ کرے گی۔
وائے بے انصافی ایسے غم خوار، پیارے کے نام پر جو روزِ ولادت سے آج تک ہماری یاد اپنے پاک روشن مبارک منور، دل سے فراموش نہ فرمائے ، جان نثار کرنا اور اس کی نعت و ستائش اور مدح و فضائل سے ، آنکھوں کو روشنی دل کو ٹھنڈک ، جان کو طراوت دینا واجب یا یہ کہ جہاں تک بس چلے چاند پر خاک ڈالئے اور بلاوجہ ان کی روشن خوبیوں میں ان کے اشتہار و اظہار میں انکار کی راہیں نکالئے اور ان کے فضائل مٹانے کے لیے حیلے بہانے تراشے ولٰکن الوھابیۃ قوم لا یعقلون o
سوال نمبر 7: کسی چیز کی خرید و فروخت کے وقت درود پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :گاہک کو سودا دکھاتے وقت تاجر کا اس غرض سے درود شریف پڑھنا یا سسبحٰن اللہ کہنا کہ اس چیز کی عمدگی خریدار پر ظاہر کرے (تاکہ وہ اسے خرید نے پر آمادہ ہو جائے) ناجائز ہے، یونہی کسی بڑے کو دیکھ کر درود شریف پڑھنا اس نیت سے کہ اور لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو جائے ، اس کی تعظیم کو اٹھیں اور جگہ چھوڑ دیں، یہ بھی ناجائز ہے۔ (درِمختاروغیرہ)
سوال نمبر 8: درود شریف کی جگہ صلعم لکھنا کیسا ہے؟
جواب :نامِ اقدس لکھتے تو درود شریف یعنی صلی اللہ علیہ وسلم یا ایسا ہی کوئی صیغۂ درود ضرور لکھے کہ بعض علماء کے نزدیک اس وقت درود شریف لکھنا واجب ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
درود شریف کی جگہ صلعم یا ؐ اور علیہ السلام کی بجائے عم یا ؑلکھنا ناجائز و حرام ہے ، یہ بلا ء عوام تو عوام، اس صدی کے بڑے بڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایک ذرہ سیاہی یا ایک انگل کاغذ یا ایک سیکنڈ وقت بچانے کے لیے کیسی کیسی عظیم برکتوں سے دور پڑتے اور محرومی و بے نصیبی کا شکار ہوتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں، پہلا وہ شخص جس نے ایسا اختصار کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا اسی طرح قدس سرہ یا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جگہ یاق یا ر ح لکھنا حماقت ، حرمان برکت اور سخت محروم ہے۔ ایسی حرکتوں سے احتراز چاہیے (افاداتِ رضویہ)
سوال نمبر 9: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب کس طرح دیتے ہیں؟
جواب :خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مجھ پر درود سلام بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ میری روحِ اطہر کو (جو معرفتِ جناب باری میں مستغرق و مشغول رہتی ہے) اس کی طرف متوجہ کر دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں (ابو داؤد)۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ اہلِ محبت کا سلام میں خود (اپنے گوشِ مبارک سے) سنتا ہوں اور میں انہیں پہچانتا ہوں اور دوسرے امتیوں کے درود سلام مجھ پر پیش کر دئیے جاتے ہیں ۔ (دلائل الخیرات وبہیقی)
دورو نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
سوال نمبر 10: بلند آواز سے درود شریف پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :اس کا جوا ب بھی حدیث شریف میں دیا گیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بلند آواز سے مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کے مرنے کے بعد آسمانوں پر فرشتے بلند آواز سے اس پر درود بھیجتے ہیں۔ (تزہتہ المجاس)
اسی میں فرمایا کہ میں نے امام نووی کی اذکار میں پڑھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بلند آواز سے درود شریف پڑھنا مستحب ہے چنانچہ علامہ خطیب بغدادی اور دوسرے علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔
سوال نمبر 11: مجمع کے ساتھ درود خوانی کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :مجمع کے ساتھ درود خوانی ، جیسا کہ مسلمانوں میں بعد دنماز دعا سے فارغ ہو کر آیۃ کریمہ پڑھ کر درود شریف پڑھنے یا محافلِ میلاد میں صلوۃ وسلام ، پست یا بلند آواز میں عرض کرنے کا معمول ہے، یہ بھی بلاشبہہ جائز ہے۔ صحابہ سے منقول ہے کہ جس مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود بھیجا جاتا ہے اس سے ایک پاکیزہ خوشبو بلند ہوتی ہے اور جب وہ آسمان پر پہنچتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں یہ اس مجمع اور مجلس کی خوشبو ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا گیا ہے۔ (دلائل الخیرات) ۔
مسلم وترمذی کی روایت ہے کہ جب کوئی جماعت ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے اس مجلس کو گھیر لیتے ہیں، رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، ان پر سکینہ (فراغت و دلحبعی) نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ان لوگوں میں یاد کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں، اور یہ بات ہر مسلمان صاحبِ ایمان جانتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء اللہ واولیاء اللہ کا ذکر بعینہٖ خدا کا ذکر ہے کہ ان کا ذکر ہے تو اسی لیے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں یہ اللہ کے ولی او ر خاص حضور کے بارے میں تو فرمایا کہ میں نے تمہیں اپنے ذکر کا حصہ بنایا ہے تو جس نے تمہارا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد عین خدا کی یاد ہے پھر نبی بھی کون؟ وہ جن کی محبت عینِ ایمان بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی بھی جان ہے۔
سوال نمبر 12: فضائل درود میں کچھ احادیث بیان کریں؟
جواب :درود شریف کے فضائل لامحدود ہیں، اس کی قدر و انتہا کو پہنچنا ہماری حدِ طاقت سے باہر ہے مگر اس فضلِ عظیم کو تصور میں لاؤ کہ بھیجنے والا خدا وندِ جلیل ہے اور جس پر بھیجا جا رہا ہے وہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول بے مثیل ہیں، درود شریف پڑھنے کے بارے میں احادیث بکثرت وارد ہیں ، تبر کا بعض ذکر کی جاتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
۱۔ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اللہ عزوجل اس پر دس بار درود نازل فرمائے (مسلم)
۲۔ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے اللہ عزوجل اس پر دس درودیں نازل فرمائے گا، اس کی دس خطائیں محو فرمائے گا اور دس درجے بلند فرمائے گا۔ (نسائی)
۳۔ قیامت کے دن مجھ سے سب سے قریب وہ ہوگا جس نے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجا ہے۔ (ترمذی)
۴۔ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے، جب تک وہ درود خوانی میں مصروف رہتا ہے خدا کے فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اب اسے اختیار ہے کہ وہ اس میں کمی کرے یا زیادتی۔(ابنِ ماجہ)
۵۔ جس شخص نے لکھ کر مجھ پر درود بھیجا تو جب تک اس کتاب میں میرا اسم شریف باقی رہے گا خدا کے فرشتے اس پر درود بھیجنے میں مشغول رہیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ فرشتے اس کی مغفرت و نجات کی دعا کرتے رہیں گے اور جس پر فرشتے درود بھیجیں گے وہ جنتی ہوگا۔ (دلائل الخیرات و شفاء شریف)
۶۔ حوضِ کوثر میرے حضور کچھ لوگ آئیں گے جنہیں میں اس لیے پہچان لوں گا کہ وہ دنیا میں مجھ پر بکثرت درود بھیجتے تھے۔ (شفاء شریف)
۷۔ قیامت کی سختیوں اور شدتوں سے سب سے پہلے وہ شخص نجات پائے گا جو مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے۔ (اصفہانی)
۸۔ جو شخص مجھ پر جمعہ کے روز سو مرتبہ درود شریف بھیجے اس کے اسی برس کے گناہ معاف فرمادئیے جائیں گے ۔ (یعنی صغیرہ گناہ)۔ (جامع صغیر)
۹۔ مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو اس لیے کہ وہ تمہارے لیے زکوٰۃ یعنی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہے۔ (ابو لعلیٰ)
۱۰۔ جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے چاہیے کہ مجھ پر درود کی کثرت کرے ، درود کے وسیلے سے اس کی مشکلیں حل ہو جائیں گی، غم دور ہو جائیں گے، مصیبتیں ٹل جائیں گی، اس کے رزق میں ترقی ہوگی اور اس کی حاجتیں پوری ہو جائیں گی۔ (دلائل الخیرات)
۱۱۔ جو شخص مجھ پر دس بار صبح اور دس بار شام کو درود بھیجے،روزِ قیامت میری شفاعت اسے پالے گی۔ (طبرانی)
الغرض درود شریف مغفرت و بخشش کا ذریعہ اور سعادتِ دارین کا وسلیہ جلیلہ ہے جو وقت اس میں صرف ہوتا ہے دین و دنیا کی برکتیں لاتا ہے اور جو دم اس سے غفلت میں گزرتا ہے اس دولتِ ابد مدت میں تیرے لیے کمی ہوتی ہے، ہاں فقیر دامن پھیلا اور اپنی جھولی اس دولتِ عظمیٰ سے بھرلے، یہ مفت کی نعمت ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دے، اس میں بخل ، حرمان و بے نصیبی کی علامت ہے، حدیث میں ہے کہ پورا بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور مجھ پر درود شریف نہ بھیجے۔ (ترمذی)
صلی اللہ علی النبی الا می واٰلہٖٗ  صلی اللہ علیہ وسلم،
صلوٰۃ و سلاماعلیک یا رسول اللہ۔

Monday 29 June 2015

Phone Par Hello Kahna Jaiz hai

فون پر ابتدائی کلمہ
 "ہیلو" کہنے کے بارے میں
آج کل یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ فون پر لفظ’’Hello‘‘ کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ آج کل کثرت سے یہ بات انٹرنیٹ اور موبائل پیغامات کے ذریعہ پھیل رہی ہے کہ ’’ہیلو‘‘ کہنا جائز نہیں ہے، ان پیغامات میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لفظ ’’Hello‘‘ “Hell” ,سے نکلا ہے اور ’’Hell‘‘ انگریزی زبان میں جہنم کو کہتے ہیں ،اس لیے ’’Hello‘‘ کا مطلب ہے جہنمی ۔
لہٰذا اس سوال کے جواب سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ اس لفظ کے لغوی معنی کیا ہیں؟ اس کا مادّہ اشتقاق کیا ہے؟ اور اس کا استعمال کن کن مواقع پر کن معنی میں ہوتا ہے؟
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ ’’ہیلو ‘‘ محض ایک تسلیماتی لفظ(Greeting) ہے ،اور اسی حیثیت سے آج کل معاشرے میں رائج ہے،اگرچہ دیگر معانی میں بھی اس کا استعمال ہے، مثلاً حیرانگی یا غصہ کے اظہار کے لیے یا کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال انگریزی زبان میں عام ہے ،اسی طرح گفتگو کی ابتداء میں حال چال پوچھنے کی غرض سے بھی اس کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ لیکن ان میں کسی جگہ بھی اس کا استعمال بد دعائیہ کلمہ کے طور پر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا مطلب ان جگہوں میں سے کسی بھی جگہ’’جہنمی‘‘لیا جاتا ہے۔چناچہ بنیادی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ لفظ محض ایک تسلیماتی لفظ ہے،کوئی بد دعائیہ کلمہ نہیں ہے۔مشہور انگریزی لغات مثلاً ’’آکسفورڈ ڈکشنری‘‘ ،’’چیمبر ڈکشنری‘‘ ،’’کیمبریج ڈکشنری‘‘اور ’’مریم ویبسٹر ڈکشنری‘‘ میں اس لفظ سے متعلق یہی تفصیلات درج ہیں،جو ابھی بیان کی گئی ہیں،اور کم و بیش یہی تفصیلات دیگر انگریزی لغت کی کتابوں میں درج ہیں۔
Oxford Dictionaries

Definition of hello in English:
Hello 
(also hallo or hullo)
EXCLAMATION
1.0 Used as a greeting or to begin a telephone conversation.
1.1 British Used to express surprise.
1.2 Used as a cry to attract someone’s attention.
1.3 Used informally to express sarcasm or anger.
Merriam-Webster's Dictionary:
hel•lo
used as a greeting
:The act of saying the word hello to someone as a greeting
—used when you are answering the telephone
Full Definition of HELLO
: An expression or gesture of greeting —used interjectionally in greeting, in answering the telephone, or to express surprise
Examples of HELLO:
They welcomed us with a warm hello.
Origin of HELLO:
Alteration of Hollo
First Known Use: 1877
Chamber Dictionary:
hello, hallo or hullo exclamation 1 used as a greeting, to attract attention or to start a telephone conversation. 2 expressing surprise or discovery.
Cambridge Dictionary:
English definition of “hello”
hello
exclamation, noun /helˈəʊ/ /-ˈoʊ/ (UK ALSO hallo, hullo)
A1 used when meeting or greeting someone: Hello, Paul. I haven't seen you for ages. A1 something that is said at the beginning of a phone conversation: "Hello, I'd like some information about your flights to the US,
please."› Something that is said to attract someone's attention:

لفظِ ’’Hello‘‘کی ابتداء سے متعلق بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس لفظ کا موجِد مشہور سائنسدان تھومس الوا ایڈیسن (Thomas Alva Edison) ہے،اور اس نے یہ لفظ فون کال کے شروع میں ابتدائی تسلیماتی (greeting)کلمات کے طور پر متعارف کروایا،جبکہ دوسری طرف ٹیلیفون کے موجد گراہم بیل کا اصرار یہ تھا کہ ابتدائی کلمہ “ahoy”ہونا چاہیئے،یہ ساری تفصیل ویلیم گرمز’’ WILLIAM GRIMES ‘‘ نے نیو یارک ٹائمز میں ۵ مارچ ۱۹۹۲ء میں اپنےشائع ہونے والے مضمون’’The great `Hello` mystery is solved‘‘ میں بیان کی ہے۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ تھومس الوا ایڈیسن اس کا موجد نہیں ہے جیسا کہ مشہور کتاب’’Memories of my ghost brother‘‘ کے مصنّف ’’Heinz Insu fenkl‘‘ نے اپنے ایک مضمون ’’Heaven and Hello‘‘ میں بیان کیا ہے(یہ مضمون realms of fantasyنامی میگزین میں 2001کو شائع ہوا تھا)۔
لیکن مطالعہ سے جو بات سامنے آئی ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ تھومس ایڈیسن اس کا موجد نہ ہو مگر کم سے کم فون پر اس کو متعارف کروانے والے وہی ہیں بہر حال اس کے بعد سے اس لفظ کو کافی شہرت ملی اور اب یہ لفظ بلا کسی مذہب اور قوم کی تخصیص کے تھوڑے بہت لہجے کے فرق کےساتھ دنیا بھر میں تسلیماتی لفظ کے طور پر مشہور ہے،خصوصاً ٹیلفون کال پر ابتدائی کلمات کے طور پر اس کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اور جہاں تک بات اس لفظ کے مادّہ اشتقاق کی ہے تو اس کے بارے میں اکثر لغت کی مشہور کتابوں میں درج ہے کہ یہ ’’Hollo ‘‘،’’Hallo‘‘، ’’Holla‘‘یا ’’Hullo‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے،اور یہ الفاظ اپنی اصل وضع کے اعتبار سے توجہ حاصل کرنے کے معنی میں آتے ہیں ، جیسا کہ اوپر انگریزی زبان کی چند مشہور ڈکشنریز کی عبارات سے واضح ہے، نیز علم اشتقاق ہی سے متعلق ’’رابرٹ کے۔برنہارٹ ‘‘کی مشہور ڈکشنری’’Chamber dictionary of etymology‘‘ کی تصریح سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے،اس ڈکشنری کی عبارت یہ ہے:
Hello 
1883, alteration of hallo, itself an alteration of holla, hollo a shout to attract attention,
البتہ ’’Heinz Insu fenkl‘‘ کا(جس کا ذکر پیچھے آیا ہے) مضمون اس سلسلہ میں خاص دلچسپی کا حامل ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ اس نے اپنے مذکورہ مضمون ہی میں اس مادّہ اشتقاق کی نفی بعض علمِ ا شتقاق کے ماہرین کے حوالے سے کی ہے، لیکن بعض کی رائے لازمی بات ہے وہ اعتماد حاصل نہیں کر سکتی جو اکثریت کی رائے کو حاصل ہے۔نیز انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض حضرات نے Helloکے لفظ میں Hellآنے کی وجہ سےیہ کوشش بھی کی کہ اس کی جگہ ’’HeavenO‘‘ کر دیا جائے ،مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ان حضرات کی یہ کوشش اور ذہنیت اس لفظِ Helloکی تاریخ اور حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر تھی۔
اس کے بعد موصوف نے اس لفظ Hellکے بہت سے معانی بیان کئے ، جن میں ایک معنی گریک بائبل(Greek bible)کے حوالےسے’’اَن دیکھا‘‘ (Unseen) بھی بیان کیے ،اور پھر لفظ Hello کی دوردرازکی تاویلات اور ترکیبات سے بعض ایسے معنی بھی بیان کیے ہیں جن میں جہنم کے معنی پائے جاتے ہیں، البتہ اس کے معنی ’’جہنمی‘‘ ہونا پھر بھی کہیں بیان نہیں کیا،مگر اس طرح کی دور دراز تاویلات سےتو سینکڑوں الفاظ کے غلط معنی نکالے جا سکتے ہیں ،لیکن حتمی بات وہی ہوگی جو لغت اور علمِ اشتقاق کے ماہرین کی رائے ہوگی ۔پھر اپنے مضمون کے آخر میں انہوں نے ترجیح اسی بات کو دی ہےکہ بفرض محال اگر Hello کو Hell سے کسی بھی طرح متعلق مانا جائے تو اس کے معنی اَن دیکھی چیز کے ہوں گے،اور اس کی مناسبت ٹیلفون سے یہ ہوگی کہ اس میں بھی صرف انسان کی آواز سنائی دیتی ہے،انسان دکھائی نہیں دیتا۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ لفظ ’’Hello‘‘محض ایک تسلیماتی لفظ (Greeting)ہے،اور اسی میں اس کا استعمال شائع ہے،اس کےمعنی ’’جہنمی‘‘ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔اس لیے فی نفسہ فون پر لفظ ’’Hello‘‘ کا استعمال جائز ہے ،گناہ نہیں ہے۔
البتہ بحیثیتِ مسلما ن ہمارے شایانِ شان یہ ہے کہ لفظ ’’Hello‘‘کے بجائے ’’السلام علیکم‘‘ کہا جائے اور اسی کی ترویج کی جائے تو ہر لحاظ سے بہتر ہے،اس لفظ کو ادا کرنے سے سنت پر عمل کا ثواب بھی ملے گا اور نیز یہ لفظ دوسرے مسلمان کے حق میں ایک بہترین دعا بھی ہے کہ ’’اللہ تم پر سلامتی نازل کرے‘‘ ،نیز حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنے درميان سلام کو پھیلاؤ‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت براء ابن عازبؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا،ان سات چیزوں میں سے جن کا حکم آپﷺ نے فرمایا ایک یہ تھی کہ ’’سلام کو پھیلاؤ‘‘۔ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ ’’سلام،کلام سے پہلے ہے‘‘ یعنی پہلے سلام کرو اور پھر کلام کرو،اسی طرح ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کے ’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے چھاہیئے کہ اس(بھائی )کو سلام کرے ‘‘۔
ایک اور موقع پر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ اسلام کا بہترین عمل کون سا ہے؟تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا کہ ’’کھانا کھلاؤ اور سلام کرو ایسے شخص کو بھی جس کو تم جانتے ہو اور ایسے شخص کو بھی جس کو تم نہیں جانتے‘‘۔
نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تمام سنتوں کی طرح اس سنت پر بھی عمل کرنے کا خاص اہتمام فرمانا ثابت ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ صرف اسی ارادے سے بازار تشریف لے جاتے کہ جو ملے اسے سلام کریں۔
لہٰذا اگرچہ فون پرHelloکہنا شرعاً جائز ہے، لیکن السلام علیکم جیسی عظیم سنّت،نیکی اور دعا کو چھوڑ کر ایک ایسے لفظ کو اپنے معمولات میں شامل کرلینا جس کا کوئی اخروی فائدہ نہ ہو ،ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے،اور بحیثیتِ مسلمان حضورِ اقدس ﷺ کی تعلیمات ، صحابہ کرامؓ کا عمل اور شعائرِ اسلام ہر لحاظ سے ہمارے لیے مقدم اور محترم ہے،اور حقیقت یہ ہے یہ کلمہ اللہ ربّ العزت کی طرف سے بڑا انعام ہے جو امّتِ محمدیہ کو دیا گیا ہے کہ محض ایک تعارفی اور کلام کی ابتداء کے کلمات کو بھی نہ صرف یہ کہ عبادت بنا دیا بلکہ مستقل ایک ایسی دعا بنا دیا جس کا ہر انسان ہر وقت محتاج ہے ،لہٰذا بہترین بات یہ ہے کہ ’’Hello‘‘کی جگہ السلام علیکم کہنے کی عادت ڈالی جائے اوراس کا جواب وعلیکم السلام کہہ کر دیا جائے



Muhammad Aur Ahmad (Hindi)


वैदिक धार्मिक ग्रन्थों 
में 
मुहम्मद तथा अहमद का उल्लेख

आज के इस पोस्ट में हम आपकी सेवा में कुछ ऐसे प्रमाण पेश कर रहे हैं जिन से सिद्ध होता है कि कल्कि अवतार” अथवानराशंस” जिनके सम्बन्ध में वैदिक धार्मिक ग्रन्थों ने भविष्यवाणी की है वह मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ही हैं। क्योंकि कुछ स्थानों पर स्पष्ट रूप में मुहम्मद” और अहमद” का वर्णन भी आया है।

1. देखिए भविष्य पुराण (323:5:8) -
» “एक दूसरे देश में एक आचार्य अपने मित्रों के साथ आएगा उनका नाम महामद होगा। वे रेगिस्तानी क्षेत्र में आएगा।

2. श्रीमदभग्वत पुराण : उसी प्रकार श्रीमदभग्वत पुराण (72-2) में शब्द मुहम्मद” इस प्रकार आया है:

अज्ञान हेतु कृतमोहमदान्धकार नाशं विधायं हित हो दयते विवेक
• अर्थात: “मुहम्मद के द्वारा अंधकार दूर होगा और ज्ञान तथा आध्यात्मिकता का प्रचनल होगा।

3. यजुर्वेद (18-31) में है -

वेदाहमेत पुरुष महान्तमादित्तयवर्ण तमसः प्रस्तावयनाय
• अर्थात: “वे अहमद महान व्यक्ति हैंयूर्य के समान अंधेरे को समाप्त करने वालेउन्हीं को जान कर प्रलोक में सफल हुआ जा सकता है। उसके अतिरिक्त सफलता तक पहूँचने का कोई दूसरा मार्ग नहीं।

4. इति अल्लोपनिषद में अल्लाह और मुहम्मद का वर्णन -

आदल्ला बूक मेककम्। अल्लबूक निखादकम् ।। 4 ।।अलो यज्ञेन हुत हुत्वा अल्ला सूय्र्य चन्द्र सर्वनक्षत्राः ।। 5 ।।अल्लो ऋषीणां सर्व दिव्यां इन्द्राय पूर्व माया परमन्तरिक्षा ।। 6 ।।अल्लः पृथिव्या अन्तरिक्ष्ज्ञं विश्वरूपम् ।। 7 ।।इल्लांकबर इल्लांकबर इल्लां इल्लल्लेति इल्लल्लाः ।। 8 ।।ओम् अल्ला इल्लल्ला अनादि स्वरूपाय अथर्वण श्यामा हुद्दी जनान पशून सिद्धांतजलवरान् अदृष्टं कुरु कुरु फट ।। 9 ।।असुरसंहारिणी हृं द्दीं अल्लो रसूल महमदरकबरस्य अल्लो अल्लाम्इल्लल्लेति इल्लल्ला ।। 10 ।।इति अल्लोपनिषद
• अर्थात: ‘‘अल्लाह ने सब ऋषि भेजे और चंद्रमासूर्य एवं तारों को पैदा किया। उसी ने सारे ऋषि भेजे और आकाश को पैदा किया। अल्लाह ने ब्रह्माण्ड (ज़मीन और आकाश) को बनाया। अल्लाह श्रेष्ठ हैउसके सिवा कोई पूज्य नहीं। वह सारे विश्व का पालनहार है। वह तमाम बुराइयों और मुसीबतों को दूर करने वाला है। मुहम्मद अल्लाह के रसूल (संदेष्टा) हैंजो इस संसार का पालनहार है। अतः घोषणा करो कि अल्लाह एक है और उसके सिवा कोई पूज्य नहीं।’’
इस श्लोक का वर्णन करने के पश्चात डा0 एम. श्रीवास्‍तव अपनी पुस्तक हज़रत मुहम्‍मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) और भारतीय धर्मग्रन्‍थ मे लिखते हैं:
(बहुत थोड़े से विद्वानजिनका संबंध विशेष रूप से आर्यसमाज से बताया जाता हैअल्लोपनिषद् की गणना उपनिषदों में नहीं करते और इस प्रकार इसका इनकार करते हैंहालांकि उनके तर्कों में दम नहीं है। इस कारण से भी वैदिक धर्म के अधिकतर विद्वान और मनीषी अपवादियों के आग्रह पर ध्यान नहीं देते। गीता प्रेस (गोरखपुर) का नाम वैदिक धर्म के प्रमाणिक प्रकाशन केंद्र के रूप में अग्रगण्य है। यहां से प्रकाशित ‘‘कल्याण’’ (हिन्दी पत्रिका) के अंक अत्यंत प्रामाणिक माने जाते हैं। इसकी विशेष प्रस्तुति ‘‘उपनिषद अंक’’ में 220 उपनिषदों की सूची दी गई हैजिसमें अल्लोपनिषद् का उल्लेख 15वें नंबर पर किया गया है।14वें नंबर पर अमत बिन्दूपनिषद् और 16वें नंबर पर अवधूतोपनिषद् (पद्य) उल्लिखित है। डा.वेद प्रकाश उपाध्याय ने भी अल्लोपनिषद को प्रामाणिक उपनिषद् माना है।


इस्लाम के बारे में दुनिया के बेशुमार विद्वानोंविचारकोंसाहित्यकारोंबुद्धिजीवियों और इतिहासकारों आदि ने अपने विचार व्यक्त किए हैं। इनमें हर धर्मजातिक़ौम और देश के लोग रहे हैं। यहाँ उनमें से सिर्फ़ भारतवर्ष के कुछ विद्वानों के विचार उद्धृत किए जा रहे हैं:

हुजुर रहमतुल लिल आलमीन (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम)
 की शानबाबा गुरु नानक जी की नज़र में
इस्लामी भाईयो! पूरा क़ुरआन हमारे नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) की अ़ज़मत और महानता को बयान करता है। तमाम सहाबातमाम ताबेअ़ीनतमाम तब्अ़े ताबेअ़ीनतमाम सालेहीनतमाम ग़ौसो ख़्वाजाक़ुतूबो अब्दालतमाम मोजद्दीदन वग़ैरा ने नबी-ए-पाक की अ़ज़मत को तस्लीम किया। अपने तो अपने ग़ैरों ने भी हुज़ूर (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) की महानता को तस्लीम किया है। उन्हीं में से एक नाम गुरु नानक का भी है।

गुरु नानक कहते हैं कि

♥ सलाह़त मोहम्मदी मुख ही आखू नत! ख़ासा बंदा सजया सर मित्रां हूं मत!!
» यानीः- ह़ज़रत मोहम्मद की तारीफ़ और हमेशा करते चले जाओ। आप अल्लाह तआला के ख़ास बंदे और तमाम नबीयों और रसूलों के सरदार हैं।
(जन्म साखी विलायत वालीपेज नम्बर 246, जन्म साखी श्री गुरु नानक देव जीप्रकाशन गुरु नानक यूनीवर्सिटी,अमृतसरपेज नम्बर 61)

नानक जी ने इस बारे में ये बात भी साफ़-साफ़ बयान किया है कि दुनिया की निजात (मुक्ति) और कामयाबी अल्लाह तआला ने हज़रत मोहम्मद के झण्ड़े तले पनाह लेने से वाबस्ता कर दिया है। गोया कि वही लोग निजात पाऐंगेजो हज़रत मोहम्मद की फ़रमाबरदारी इख़्तियार करेंगे और हज़रत मोहम्मद की ग़ुलामी में ज़िन्दगी बसर करने का वादा करेंगे। चुनांचे नानक कहते हैं कि

♥ सेई छूटे नानका हज़रत जहां पनाह!
» यानीः- निजात उन लोगों के लिए ही मुक़र्रर हैजो हज़रत मोहम्मद की पनाह में आऐंगे और उनकी ग़ुलामी में ज़िन्दगी बसर करेंगे।
(जन्म साखी विलायत वालीप्रकाषन 1884 ईस्वीपेज 250)

नानक जी के इस बयान के पेशे नज़र गुरु अर्जून ने यह कहा है कि..

♥ अठे पहर भोंदाफिरे खावनसंदड़े सूल! दोज़ख़ पौंदाक्यों रहेजां चित न हूए रसूल!!
» यानी: जिन लोगों के दिलों में हज़रत मोहम्मद की अ़क़ीदत और मोहब्बत ना होगीवह इस दुनिया मे आठों पहर भटकते फिरेंगे और मरने के बाद उन को दोज़ख़ मिलेगी।
(गुरु ग्रन्थ साहबपेज नम्बर 320)

नानक ने इन बातों के पेशे नज़र ही दूसरे लोगों को ये नसीहत की है कि …

♥ मोहम्मद मन तूंमन किताबां चार! मन ख़ुदा-ए-रसूल नूंसच्चा ई दरबार!!
» यानीः हज़रत मोहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) पर ईमान लाओ और चारों आसमानी किताबों को मानो। अल्लाह और उस के रसूल पर ईमान लाकर ही इन्सान अपने अल्लाह के दरबार में कामयाब होगा।
(जन्म साखी भाई बालापेज नम्बर 141)

एक और जगह पर नानक जी ने कहा कि …

♥ ले पैग़म्बरी आयाइस दुनिया माहे! नाऊं मोहम्मद मुस्तफ़ाहो आबे परवा हे!!
» यानीः- जिन का नाम मोहम्मद हैवह इस दुनिया में पैग़म्बर बन कर तशरीफ़ लाए हैं और उन्हें किसी भी शैतानी ताक़त का ड़र या ख़ौफ़ नहीं है। वह बिल्कुल बे परवा हैं।
(जन्म साखी विलायत वालीपेज नम्बर 168)

एक और जगह नानक ने कहा कि

♥ अव्वल नाऊं ख़ुदाए दा दर दरवान रसूल! शैख़ानियत रास करतांदरगाह पुवीं कुबूल!!
» यानीः किसी भी इन्सान को हज़रत मोहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) की इजाज़त हासिल किए बग़ैर अल्लाह तआला के दरबार में रसाई हासिल नहीं हो सकती।
(जन्म साखी विलायत वालीपेज नम्बर 168)

एक और मक़ाम पर गुरु नानक ने कहा है कि

♥ हुज्जत राह शैतान दाकीता जिनहां कुबूल! सो दरगाह ढोईना लहन भरेना शफ़ाअ़त रसूल!!
» यानीः जिन लोगों ने शैतानी रास्ता अपना रखा है और हुज्जत बाज़ी से काम लेते हैं। उन्हें अल्लाह के दरबार में रसाई हासिल ना हो सकेगी। ऐसे लोग हज़रत मोहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) की शफ़ाअ़त से भी महरुम रहेंगे। शफ़ाअ़त उन लोगों के लिए हैजो शैतानी रास्ते छोड़कर नेक नियत से ज़िन्दगी बसर करेंगे।
(जन्म साखी भाई वालापेज नम्बर 195)

एक सिक्ख विद्वान डॉ. त्रिलोचन सिंह लिखते हैं कि

♥ “हज़रत मोहम्मद नूं गुरु नानक जी रब दे महान पैग़म्बर मन्दे सुन
(जिवन चरित्र गुरु नानकपेज नम्बर 305)
अल ग़रज़गुरु नानक हज़रत मोहम्मद मुस्तफ़ा (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) को अल्लाह तआला का ख़ास पैग़म्बर ख़ातमुल मुरसलीन (आख़री रसूल) और ख़ातमुल अंम्बिया (आख़री पैग़म्बर) तसलीम करते थे और तमाम नबीयों का सरदार समझते थे। गुरु नानक के नज़दीक दुनिया की निजातहज़रत मोहम्मद मुस्तफ़ा (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) के झण्ड़े तले जमा होने से जुड़ी है।

 पहला नाम खुदा का  दूजा नाम  रसूल ।
तीजा कलमा पढ़ नानका दरगे पावें क़बूल ।
डेहता नूरे  मुहम्मदी  डेगता  नबी  रसूल ।
नानक कुदरत देख कर दुखी गई सब भूल |


ऊपर की पंक्तियों को गौर से पढ़िए फिर सोचिए कि स्पष्ट रूप में गुरू नानक जी ने अल्लाह और मुहम्मद सल्ललाहो अलैहि वसल्लम का परिचय कराया है। और इस्लाम में प्रवेश करने के लिए यही एक शब्द बोलना पड़ता है कि मैं इस बात का वचन देता हूं कि अल्लाह के अतिरिक्त कोई सत्य पूज्य नहीं। औऱ मैं इस बात का वचन देता हूं कि मुहम्मद सल्लअल्लाह के अन्तिम संदेष्टा और दूत हैं।

न इस्लाम में प्रवेश करने के लिए खतना कराने की आवशेकता है और न ही गोश्त खाने की जैसा कि कुछ लोगों में यह भ्रम पाया जाता है। यही बात गरू नानक जी ने कही है और मुहम्मद सल्ल0 को मानने की दावत दी है। परन्तु किन्हीं कारणवश खुल कर सामने न आ सके और दिल में पूरी श्रृद्धा होने के साथ मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम के संदेष्टा होने को स्वीकार करते थे। -

स्वामी विवेकानंद (विश्व-विख्यात धर्मविद्)
इस्लाम के बारे में विचार

मुहम्मद साहब (इन्सानी) बराबरीइन्सानी भाईचारे और तमाम मुसलमानों के भाईचारे के पैग़म्बर थे। … जैसे ही कोई व्यक्ति इस्लाम स्वीकार करता है पूरा इस्लाम बिना किसी भेदभाव के उसका खुली बाहों से स्वागत करता हैजबकि कोई दूसरा धर्म ऐसा नहीं करता। …

हमारा अनुभव है कि यदि किसी धर्म के अनुयायियों ने इस (इन्सानी) बराबरी को दिन-प्रतिदिन के जीवन में व्यावहारिक स्तर पर बरता है तो वे इस्लाम और सिर्फ़ इस्लाम के अनुयायी हैं। … मुहम्मद साहब ने अपने जीवन-आचरण से यह बात सिद्ध कर दी कि मुसलमानों में भरपूर बराबरी और भाईचारा है। यहाँ वर्णनस्लरंग या लिंग (के भेद) का कोई प्रश्न ही नहीं। … इसलिए हमारा पक्का विश्वास है कि व्यावहारिक इस्लाम की मदद लिए बिना वेदांती सिद्धांतचाहे वे कितने ही उत्तम और अद्भुत हों विशाल मानव-जाति के लिए मूल्यहीन (Valueless) हैं …”

टीचिंग्स ऑफ विवेकानंदपृष्ठ-214, 215, 217, 218) अद्वैत आश्रमकोलकाता-2004


मुंशी प्रेमचंद (प्रसिद्ध साहित्यकार)
इस्लाम के बारे में विचार

जहाँ तक हम जानते हैंकिसी धर्म ने न्याय को इतनी महानता नहीं दी जितनी इस्लाम ने। …इस्लाम की बुनियाद न्याय पर रखी गई है। वहाँ राजा और रंकअमीर और ग़रीबबादशाह और फ़क़ीर के लिए ‘केवल एक’ न्याय है। किसी के साथ रियायत नहीं किसी का पक्षपात नहीं। ऐसी सैकड़ों रिवायतें पेश की जा सकती है जहाँ बेकसों ने बड़े-बड़े बलशाली आधिकारियों के मुक़ाबले में न्याय के बल से विजय पाई है। ऐसी मिसालों की भी कमी नहीं जहाँ बादशाहों ने अपने राजकुमारअपनी बेगम,यहाँ तक कि स्वयं अपने तक को न्याय की वेदी पर होम कर दिया है। संसार की किसी सभ्य से सभ्य जाति की न्याय-नीति कीइस्लामी न्याय-नीति से तुलना कीजिएआप इस्लाम का पल्ला झुका (भारी) हुआ पाएँगे’’

जिन दिनों इस्लाम का झंडा कटक से लेकर डेन्युष तक और तुर्किस्तान से लेकर स्पेन तक फ़हराता था मुसलमान बादशाहों की धार्मिक उदारता इतिहास में अपना सानी (समकक्ष) नहीं रखती थी। बड़े से बड़े राज्यपदों पर ग़ैर-मुस्लिमों को नियुक्त करना तो साधारण बात थीमहाविद्यालयों के कुलपति तक ईसाई और यहूदी होते थे…”

यह निर्विवाद रूप से कहा जा सकता है कि इस (समता) के विषय में इस्लाम ने अन्य सभी सभ्यताओं को बहुत पीछे छोड़ दिया है। वे सिद्धांत जिनका श्रेय अब कार्ल मार्क्स और रूसो को दिया जा रहा है वास्तव में अरब के मरुस्थल में प्रसूत हुए थे और उनका जन्मदाता अरब का वह उम्मी (अनपढ़निरक्षर व्यक्ति) था जिसका नाम मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) है। मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) के सिवाय संसार में और कौन धर्म प्रणेता हुआ है जिसने ख़ुदा के सिवाय किसी मनुष्य के सामने सिर झुकाना गुनाह ठहराया है…?”
कोमल वर्ग के साथ तो इस्लाम ने जो सलूक किए हैं उनको देखते हुए अन्य समाजों का व्यवहार पाशविक जान पड़ता है। किस समाज में स्त्रियों का जायदाद पर इतना हक़ माना गया है जितना इस्लाम में? … हमारे विचार में वही सभ्यता श्रेष्ठ होने का दावा कर सकती है जो व्यक्ति को अधिक से अधिक उठने का अवसर दे। इस लिहाज़ से भी इस्लामी सभ्यता को कोई दूषित नहीं ठहरा सकता।

हज़रत (मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने फ़रमायाकोई मनुष्य उस वक़्त तक मोमिन (सच्चा मुस्लिम) नहीं हो सकता जब तक वह अपने भाई-बन्दों के लिए भी वही न चाहे जितना वह अपने लिए चाहता है। … जो प्राणी दूसरों का उपकार नहीं करता ख़ुदा उससे ख़ुश नहीं होता। उनका यह कथन सोने के अक्षरों में लिखे जाने योग्य है.

‘‘ईश्वर की समस्त सृष्टि उसका परिवार है वही प्राणी ईश्वर का (सच्चा) भक्त है जो ईश्वर के बन्दों के साथ नेकी करता है।’’ …अगर तुम्हें ईश्वर की बन्दगी करनी है तो पहले उसके बन्दों से मुहब्बत करो।’’
सूद (ब्याज) की पद्धति ने संसार में जितने अनर्थ किए हैं और कर रही है वह किसी से छिपे नहीं है। इस्लाम वह अकेला धर्म है जिसने सूद को हराम (अवैध) ठहराया है …”

अन्नादुराई (डी॰एमके॰ के संस्थापकभूतपूर्व मुख्यमंत्री तमिलनाडु)
इस्लाम के बारे में विचार

इस्लाम के सिद्धांतों और धारणाओं की जितनी ज़रूरत छठी शताब्दी में दुनिया को थीउससे कहीं बढ़कर उनकी ज़रूरत आज दुनिया को हैजो विभिन्न विचारधाराओं की खोज में ठोकरें खा रही है और कहीं भी उसे चैन नहीं मिल सका है।

इस्लाम केवल एक धर्म नहीं हैबल्कि वह एक जीवन-सिद्धांत और अति उत्तम जीवन-प्रणाली है। इस जीवन-प्रणाली को दुनिया के कई देश ग्रहण किए हुए हैं।
जीवन-संबंधी इस्लामी दृष्टिकोण और इस्लामी जीवन-प्रणाली के हम इतने प्रशंसक क्यों हैंसिर्फ़ इसलिए कि इस्लामी जीवन-सिद्धांत इन्सान के मन में उत्पन्न होने वाले सभी संदेहों ओर आशंकाओं का जवाब संतोषजनक ढंग से देते हैं।
अन्य धर्मों में शिर्क (बहुदेववाद) की शिक्षा मौजूद होने से हम जैसे लोग बहुत-सी हानियों का शिकार हुए हैं। शिर्क के रास्तों को बन्द करके इस्लाम इन्सान को बुलन्दी और उच्चता प्रदान करता है और पस्ती और उसके भयंकर परिणामों से मुक्ति दिलाता है।
इस्लाम इन्सान को सिद्ध पुरुष और भला मानव बनाता है। ख़ुदा ने जिन बुलन्दियों तक पहुँचने के लिए इन्सान को पैदा किया हैउन बुलन्दियों को पाने और उन तक ऊपर उठने की शक्ति और क्षमता इन्सान के अन्दर इस्लाम के द्वारा पैदा होती है।’’
इस्लाम की एक अन्य ख़ूबी यह है कि उसको जिसने भी अपनाया वह जात-पात के भेदभाव को भूल गया।
मुदगुत्तूर (यह तमिलनाडु का एक गाँव है जहाँ ऊँची जात और नीची जात वालों के बीच भयानक दंगे हुए थे।) में एक-दूसरे की गर्दन मारने वाले जब इस्लाम ग्रहण करने लगे तो इस्लाम ने उनको भाई-भाई बना दिया। सारे भेदभाव समाप्त हो गए। नीची जाति के लोग नीचे नहीं रहेबल्कि सबके सब प्रतिष्ठित और आदरणीय हो गए। सब समान अधिकारों के मालिक होकर बंधुत्व के बंधन में बंध गए।
इस्लाम की इस ख़ूबी से मैं बहुत प्रभावित हुआ हूँ। बर्नाड शॉजो किसी मसले के सारे ही पहलुओं का गहराई के साथ जायज़ा लेने वाले व्यक्ति थेउन्होंने इस्लाम के उसूलों का विश्लेषण करने के बाद कहा था:
‘‘दुनिया में बाक़ी और क़ायम रहने वाला दीन (धर्म) यदि कोई है तो वह केवल इस्लाम है।’’
आज 1957 ई॰ में जब हम मानव-चिंतन को जागृत करने और जनता को उनकी ख़ुदी से अवगत कराने की थोड़ी-बहुत कोशिश करते हैं तो कितना विरोध होता है। चौदह सौ साल पहले जब नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने यह संदेश दिया कि बुतों को ख़ुदा न बनाओ। अनेक ख़ुदाओं को पूजने वालों के बीच खड़े होकर यह ऐलान किया कि बुत तुम्हारे ख़ुदा नहीं हैं। उनके आगे सिर मत झुकाओ। सिर्फ एक स्रष्टा (इश्वर) ही की उपासना करो।
इस ऐलान के लिए कितना साहस चाहिए थाइस संदेश का कितना विरोध हुआ होगा। विरोध के तूफ़ान के बीच पूरी दृढ़ता के साथ आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) यह क्रांतिकारी संदेश देते रहेयह आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) की महानता का बहुत बड़ा सुबूत है।
इस्लाम अपनी सारी ख़ूबियों और चमक-दमक के साथ हीरे की तरह आज भी मौजूद है। अब इस्लाम के अनुयायियों का यह कर्तव्य है कि वे इस्लाम धर्म को सच्चे रूप में अपनाएँ। इस तरह वे अपने रब की प्रसन्नता और ख़ुशी भी हासिल कर सकते हैं और ग़रीबों और मजबूरों की परेशानी भी हल कर सकते हैं। और मानवता भौतिकी एवं आध्यात्मिक विकास की ओर तीव्र गति से आगे बढ़ सकती है।’’
मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) का जीवन-चरित्रा पर भाषण 7 अक्टूबर 1957 ई॰

प्रोफ़ेसर के॰ एस॰ रामाकृष्णा राव
(अध्यक्षदर्शन-शास्त्र विभागराजकीय कन्या विद्यालय मैसूरकर्नाटक)
इस्लाम के बारे में विचार

‘‘पैग़म्बर मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) की शिक्षाओं का ही यह व्यावहारिक गुण हैजिसने वैज्ञानिक प्रवृत्ति को जन्म दिया। इन्हीं शिक्षाओं ने नित्य के काम-काज और उन कामों को भी जो सांसारिक काम कहलाते हैं आदर और पवित्राता प्रदान की। क़ुरआन कहता है कि इन्सान को ख़ुदा की इबादत के लिए पैदा किया गया हैलेकिन ‘इबादत’ (पूजा) की उसकी अपनी अलग परिभाषा है। ख़ुदा की इबादत केवल पूजा-पाठ आदि तक सीमित नहींबल्कि हर वह कार्य जो अल्लाह के आदेशानुसार उसकी प्रसन्नता प्राप्त करने तथा मानव-जाति की भलाई के लिए किया जाए इबादत के अंतर्गत आता है।

इस्लाम ने पूरे जीवन और उससे संबद्ध सारे मामलों को पावन एवं पवित्र घोषित किया है। शर्त यह है कि उसे ईमानदारी,न्याय और नेकनियती के साथ किया जाए। पवित्र और अपवित्र के बीच चले आ रहे अनुचित भेद को मिटा दिया। क़ुरआन कहता है कि अगर तुम पवित्र और स्वच्छ भोजन खाकर अल्लाह का आभार स्वीकार करो तो यह भी इबादत है।
पैग़म्बरे इस्लाम मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने कहा है कि यदि कोई व्यक्ति अपनी पत्नी को खाने का एक लुक़्मा खिलाता है तो यह भी नेकी और भलाई का काम है और अल्लाह के यहाँ वह इसका अच्छा बदला पाएगा।
पैग़म्बर की एक और हदीस है— “अगर कोई व्यक्ति अपनी कामना और ख़्वाहिश को पूरा करता है तो उसका भी उसे सवाब मिलेगा। शर्त यह है कि इसके लिए वही तरीक़ा अपनाए जो जायज़ हो।”
एक साहब जो आपकी बातें सुन रहे थेआश्चर्य से बोले, “हे अल्लाह के पैग़म्बर वह तो केवल अपनी इच्छाओं और अपने मन की कामनाओं को पूरा करता है। आपने उत्तर दिया, ‘यदि उसने अपनी इच्छाओं की पूर्ति के लिए अवैध तरीक़ों और साधनों को अपनाया होता तो उसे इसकी सज़ा मिलतीतो फिर जायज़ तरीक़ा अपनाने पर उसे इनाम क्यों नहीं मिलना चाहिए?’
धर्म की इस नयी धारणा ने कि, ‘धर्म का विषय पूर्णतः अलौकिक जगत के मामलों तक सीमित न रहना चाहिएबल्कि इसे लौकिक जीवन के उत्थान पर भी ध्यान देना चाहिएनीति-शास्त्रा और आचार-शास्त्र के नए मूल्यों एवं मान्यताओं को नई दिशा दी। इसने दैनिक जीवन में लोगों के सामान्य आपसी संबंधों पर स्थाई प्रभाव डाला। इसने जनता के लिए गहरी शक्ति का काम कियाइसके अतिरिक्त लोगों के अधिकारों और कर्तव्यों की धारणाओं को सुव्यवस्थित करना और इसका अनपढ़ लोगों और बुद्धिमान दार्शनिकों के लिए समान रूप से ग्रहण करने और व्यवहार में लाने के योग्य होना पैग़म्बरे इस्लाम की शिक्षाओं की प्रमुख विशेषताएँ हैं। यहाँ यह बात सतर्कता के साथ दिमाग़ में आ जानी चाहिए कि भले कामों पर ज़ोर देने का अर्थ यह नहीं है कि इसके लिए धार्मिक आस्थाओं की पवित्रता एवं शुद्धता को कु़र्बान किया गया है। ऐसी बहुत-सी विचारधाराएँ हैंजिनमें या तो व्यावहारिता के महत्व की बलि देकर आस्थाओं ही को सर्वोपरि माना गया है या फिर धर्म की शुद्ध धारणा एवं आस्था की परवाह न करके केवल कर्म को ही महत्व दिया गया है।
इनके विपरीत इस्लाम सत्य आस्था एवं सतकर्म (के सामंजस्य) के नियम पर आधारित है। यहाँ साधन भी उतना ही महत्व रखते हैं जितना लक्ष्य। लक्ष्यों को भी वही महत्ता प्राप्त है जो साधनों को प्राप्त है। यह एक जैव इकाई की तरह हैइसके जीवन और विकास का रहस्य इनके आपस में जुड़े रहने में निहित है। अगर ये एक-दूसरे से अलग होते हैं तो ये क्षीण और विनष्ट होकर रहेंगे। इस्लाम में ईमान और अमल को अलग-अलग नहीं किया जा सकता। सत्य ज्ञान को सत्कर्म में ढल जाना चाहिए। ताकि अच्छे फल प्राप्त हो सके।
जो लोग ईमान रखते हैं और नेक अमल करते हैंकेवल वे ही स्वर्ग में जा सकेंगे’ यह बात क़ुरआन में कितनी ही बार दोहराई गयी है। इस बात को पचास बार से कम नहीं दोहराया गया है। सोच-विचार और ध्यान पर उभारा अवश्य गया हैलेकिन मात्र ध्यान और सोच-विचार ही लक्ष्य नहीं है। जो लोग केवल ईमान रखेंलेकिन उसके अनुसार कर्म न करें उनका इस्लाम में कोई मक़ाम नहीं है। जो ईमान तो रखें लेकिन कुकर्म भी करें उनका ईमान क्षीण है। ईश्वरीय क़ानून मात्र विचार-पद्धति नहींबल्कि वह एक कर्म और प्रयास का क़ानून है। यह दीन (धर्म) लोगों के लिए ज्ञान से कर्म और कर्म से परितोष द्वारा स्थाई एवं शाश्वत उन्नति का मार्ग दिखलाता है।
लेकिन वह सच्चा ईमान क्या हैजिससे सत्कर्म का आविर्भाव होता हैजिसके फलस्वरूप पूर्ण परितोष प्राप्त होता हैइस्लाम का बुनियादी सिद्धांत ऐकेश्वरवाद है ‘अल्लाह बस एक ही हैउसके अतिरिक्त कोई इलाह नहीं’ इस्लाम का मूल मंत्र है। इस्लाम की तमाम शिक्षाएँ और कर्म इसी से जुड़े हुए हैं। वह केवल अपने अलौकिक व्यक्तित्व के कारण ही अद्वितीय नहींबल्कि अपने दिव्य एवं अलौकिक गुणों एवं क्षमताओं की दृष्टि से भी अनन्य और बेजोड़ है।’’
मुहम्मदइस्लाम के पैग़म्बर’ मधुर संदेश संगमनई दिल्ली, 1990

वेनगताचिल्लम अडियार (अब्दुल्लाह अडियार)
 इस्लाम के बारे में विचार

जन्म: 16, मई 1938

● वरिष्ठ तमिल लेखकन्यूज़ एडीटर: दैनिक ‘मुरासोली
● तमिलनाडु के 3 मुख्यमंत्रियों के सहायक
● कलाइममानी अवार्ड (विग जेम ऑफ आर्ट्स) तमिलनाडु सरकारपुरस्कृत 1982
● 120 उपन्यासों, 13 पुस्तकों, 13 ड्रामों के लेखक
● संस्थापकपत्रिका ‘नेरोत्तम

‘‘औरत के अधिकारों से अनभिज्ञ अरब समाज में प्यारे नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने औरत को मर्द के बराबर दर्जा दिया। औरत का जायदाद और सम्पत्ति में कोई हक़ न थाआप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने विरासत में उसका हक़ नियत किया। औरत के हक़ और अधिकार बताने के लिए क़ुरआन में निर्देश उतारे गए।

माँ-बाप और अन्य रिश्तेदारों की जायदाद में औरतों को भी वारिस घोषित किया गया। आज सभ्यता का राग अलापने वाले कई देशों में औरत को न जायदाद का हक़ है न वोट देने का। इंग्लिस्तान में औरत को वोट का अधिकार 1928 ई॰ में पहली बार दिया गया। भारतीय समाज में औरत को जायदाद का हक़ पिछले दिनों में हासिल हुआ।
लेकिन हम देखते हैं कि आज से चौदह सौ वर्ष पूर्व ही ये सारे हक़ और अधिकार नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने औरतों को प्रदान किए। कितने बड़े उपकारकर्ता हैं आप।
आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) की शिक्षाओं में औरतों के हक़ पर काफ़ी ज़ोर दिया गया है। आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने ताकीद की कि लोग कर्तव्य से ग़ाफ़िल न हों और न्यायसंगत रूप से औरतों के हक़ अदा करते रहें। आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने यह भी नसीहत की है कि औरत को मारा-पीटा न जाए।
औरत के साथ कैसा बर्ताव किया जाएइस संबंध में नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) की बातों का अवलोकन कीजिए:
1. अपनी पत्नी को मारने वाला अच्छे आचरण का नहीं है।
2. तुममें से सर्वश्रेष्ठ व्यक्ति वह है जो अपनी पत्नी से अच्छा सुलूक करे।
3. औरतों के साथ अच्छे तरीक़े से पेश आने का ख़ुदा हुक्म देता हैक्योंकि वे तुम्हारी माँबहन और बेटियाँ हैं।
4. माँ के क़दमों के नीचे जन्नत है।
5. कोई मुसलमान अपनी पत्नी से नफ़रत न करे। अगर उसकी कोई एक आदत बुरी है तो उसकी दूसरी अच्छी आदत को देखकर मर्द को ख़ुश होना चाहिए।
6. अपनी पत्नी के साथ दासी जैसा व्यवहार न करो। उसको मारो भी मत।
7. जब तुम खाओ तो अपनी पत्नी को भी खिलाओ।
8. पत्नी को ताने मत दो। चेहरे पर न मारो। उसका दिल न दुखाओ। उसको छोड़कर न चले जाओ।
9. पत्नी अपने पति के स्थान पर समस्त अधिकारों की मालिक है।
10. अपनी पत्नियों के साथ जो अच्छी तरह बर्ताव करेंगेवही तुम में सबसे बेहतर हैं।

मर्द को किसी भी समय अपनी काम-तृष्णा की ज़रूरत पेश आ सकती है। इसलिए कि उसे क़ुदरत ने हर हाल में हमेशा सहवास के योग्य बनाया है जबकि औरत का मामला इससे भिन्न है। माहवारी के दिनों मेंगर्भावस्था में (नौ-दस माह)प्रसव के बाद के कुछ माह औरत इस योग्य नहीं होती कि उसके साथ उसका पति संभोग कर सके।

सारे ही मर्दों से यह आशा सही न होगी कि वे बहुत ही संयम और नियंत्रण से काम लेंगे और जब तक उनकी पत्नियाँ इस योग्य नहीं हो जातीं कि वे उनके पास जाएँवे काम इच्छा को नियंत्रित रखेंगे। मर्द जायज़ तरीक़े से अपनी ज़रूरत पूरी कर सकेज़रूरी है कि इसके लिए राहें खोली जाएँ और ऐसी तंगी न रखी जाए कि वह हराम रास्तों पर चलने पर विवश हो। पत्नी तो उसकी एक होआशना औरतों की कोई क़ैद न रहे। इससे समाज में जो गन्दगी फैलेगी और जिस तरह आचरण और चरित्रा ख़राब होंगे इसका अनुमान लगाना आपके लिए कुछ मुश्किल नहीं है।
व्यभिचार और बदकारी को हराम ठहराकर बहुस्त्रीवाद की क़ानूनी इजाज़त देने वाला बुद्धिसंगत दीन इस्लाम है।
एक से अधिक शादियों की मर्यादित रूप में अनुमति देकर वास्तव में इस्लाम ने मर्द और औरत की शारीरिक संरचनाउनकी मानसिक स्थितियों और व्यावहारिक आवश्यकताओं का पूरा ध्यान रखा है और इस तरह हमारी दृष्टि में इस्लाम बिल्कुल एक वैज्ञानिक धर्म साबित होता है। यह एक हक़ीक़त हैजिस पर मेरा दृढ़ और अटल विश्वास है।

इतिहास में हमें कोई ऐसी घटना नहीं मिलती कि अगर किसी ने इस्लाम क़बूल करने से इन्कार किया तो उसे केवल इस्लाम क़बूल न करने के जुर्म में क़त्ल कर दिया गया होलेकिन कैथोलिक और प्रोटेस्टेंट के बीच संघर्ष में धर्म की बुनियाद पर बड़े पैमाने पर ख़ून-ख़राबा हुआ। दूर क्यों जाइएतमिलनाउु के इतिहास ही को देखिएमदुरै में ज्ञान समुन्द्र के काल में आठ हज़ार समनर मत के अनुयायियों को सूली दी गईयह हमारा इतिहास है।

अरब में प्यारे नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) शासक थे तो वहाँ यहूदी भी आबाद थे और ईसाई भीलेकिन आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने उन पर कोई ज़्यादती नहीं की।
हिन्दुस्तान में मुस्लिम शासकों के ज़माने में हिन्दू धर्म को अपनाने और उस पर चलने की पूर्ण अनुमति थी। इतिहास गवाह है कि इन शासकों ने मन्दिरों की रक्षा और उनकी देखभाल की है।
मुस्लिम फ़ौजकशी अगर इस्लाम को फैलाने के लिए होती तो दिल्ली के मुस्लिम सुल्तान के ख़िलाफ़ मुसलमान बाबर हरगिज़ फ़ौजकशी न करता। मुल्कगीरी उस समय की सर्वमान्य राजनीति थी। मुल्कगीरी का कोई संबंध धर्म के प्रचार से नहीं होता। बहुत सारे मुस्लिम उलमा और सूफ़ी इस्लाम के प्रचार के लिए हिन्दुस्तान आए हैं और उन्होंने अपने तौर पर इस्लाम के प्रचार का काम यहाँ अंजाम दियाउसका मुस्लिम शासकों से कोई संबंध न थाइसके सबूत में नागोर में दफ़्न हज़रत शाहुल हमीद,अजमेर के शाह मुईनुद्दीन चिश्ती वग़ैरह को पेश किया जा सकता है।
इस्लाम अपने उसूलों और अपनी नैतिक शिक्षाओं की दृष्टि से अपने अन्दर बड़ी कशिश रखता हैयही वजह है कि इन्सानों के दिल उसकी तरफ़ स्वतः खिंचे चले आते हैं। फिर ऐसे दीन को अपने प्रचार के लिए तलवार उठाने की आवश्यकता ही कहाँ शेष रहती है?

श्री वेनगाताचिल्लम अडियार ने बाद में (जून 1987 को) इस्लाम धर्म स्वीकार कर लिया था। और ‘अब्दुल्लाह अडियार’ नाम रख लिया था।

श्री अडियार से प्रभावित होकर जिन लोगों ने इस्लाम धर्म स्वीकार किया उनमें उल्लेखनीय विभूतियाँ हैं :
1) श्री कोडिक्कल चेलप्पाभूतपूर्व ज़िला सचिवकम्युनिस्ट पार्टी ऑफ़ इंडिया (अब कोडिक्कल शेख़ अब्दुल्लाह’)
2) वीरभद्रनमडॉ॰ अम्बेडकर के सहपाठी (अब मुहम्मद बिलाल’)
3) स्वामी आनन्द भिक्खूबौद्ध भिक्षु (अब मुजीबुल्लाह’)
श्री अब्दुल्लाह अडियार के पिता वन्कटचिल्लम और उनके दो बेटों ने भी इस्लाम स्वीकार कर लिया था।
इस्लाम माय फ़सिनेशन एम॰एम॰आई॰ पब्लिकेशंसनई दिल्ली, 2007

विशम्भर नाथ पाण्डे भूतपूर्व राज्यपालउड़ीसा
 इस्लाम के बारे में विचार


क़ुरआन ने मनुष्य के आध्यात्मिकआर्थिक और राजकाजी जीवन को जिन मौलिक सिद्धांतों पर क़ायम करना चाहा है उनमें लोकतंत्र को बहुत ऊँची जगह दी गई है और समतास्वतंत्रताबंधुत्व-भावना के स्वर्णिम सिद्धांतों को मानव जीवन की बुनियाद ठहराया गया है।

क़ुरआन ‘‘तौहीद’’ यानी एकेश्वरवाद को दुनिया की सबसे बड़ी सच्चाई बताता है। वह आदमी की ज़िन्दगी के हर पहलू की बुनियाद इसी सच्चाई पर क़ायम करता है। क़ुरआन का कहना है कि जब कुल सृष्टि का ईश्वर एक है तो लाज़मी तौर पर कुल मानव समाज भी उसी ईश्वर की एकता का एक रूप है। आदमी अपनी बुद्धि और अपनी आध्यात्मिक शक्तियों से इस सच्चाई को अच्छी तरह समझ सकता इै। इसलिए आदमी का सबसे पहला कर्तव्य यह है कि ईश्वर की एकता को अपने धर्म-ईमान की बुनियाद बनाए और अपने उस मालिक के सामनेजिसने उसे पैदा किया और दुनिया की नेमतें दींसर झुकाए। आदमी की रूहानी ज़िन्दगी का यही सबसे पहला उसूल है।
एकेश्वरवाद के सिद्धांत पर ही आधारित क़ुरआन ने दो तरह के कर्तव्य हर आदमी के सामने रखे हैं—एकजिन्हें वह ‘हक़ूक़-अल्लाह’ अर्थात ईश्वर के प्रति मनुष्य के कर्तव्य कहता है और दूसरेजिन्हें वह ‘हक़ूक़-उल-अबाद’ अर्थात मानव के प्रति-मानव के कर्तव्य। हक़ूक़-अल्लाह में नमाज़रोज़ाहजज़कातआख़रत और देवदूतों (फ़रिश्तों) पर विश्वास जैसी बातें शामिल हैंजिन्हें हर व्यक्ति देश काल के अनुसार अपने ढंग से पूरा कर सकता है।
क़ुरआन ने इन्हें इन्सान के लिए फ़र्ज़ बताया है इसे ही वास्तविक इबादत (ईश्वर पूजा) कहा है। इन कर्तव्यों के पूरा करने से आदमी में रूहानी शक्ति आती है।
हक़ूक़-अल्लाह’ के साथ ही क़ुरआन ने ‘हक़ूक़-उल-अबाद’ अर्थात मानव के प्रति मानव के कर्तव्य पर भी ज़ोर दिया है और साफ़ कहा है कि अगर ‘हक़ूक़-अल्लाह’ के पूरा करने में किसी तरह की कमी रह जाए तो ख़ुदा माफ़ कर सकता हैलेकिन अगरहक़ूक़-उल-अबाद’ के पूरा करने में ज़र्रा बराबर की कमी रह जाए तो ख़ुदा उसे हरगिज़ माफ़ न करेगा। ऐसे आदमी को इस दुनिया और दूसरी दुनियादोनों मेंख़िसारा अर्थात् घाटा उठाना होगा।
क़ुरआन का यह पहला बुनियादी उसूल हुआ।
क़ुरआन का दूसरा उसूल यह है कि ‘हक़ूक़-अल्लाह’ यानी नमाज़ रोज़ाज़कात और हज आदमी के आध्यात्मिक (रूहानी) जीवन और आत्मिक जीवन (Spiritual Life) से संबंध रखते हैं। इसलिए इन्हें ईमान (श्रद्धा)ख़ुलूसे क़ल्ब (शुद्ध हृदय) और बेग़रज़ी (निस्वार्थ भावना) के साथ पूरा करना चाहिएयानी इनके पूरा करने में अपने लिए कोई निजी या दुनियावी फ़ायदा निगाह में नहीं होनी चाहिए। यह केवल अल्लाह के निकट जाने के लिए और रूहानी शक्ति हासिल करने के लिए हैं ताकि आदमी दीन-धर्म की सीधी राह पर चल सके। अगर इनमें कोई भी स्वार्थ या ख़ुदग़रज़ी आएगी तो इनका वास्तविक उद्देश्य जाता रहेगा और यह व्यर्थ हो जाएँगे।

आदमी की समाजी ज़िन्दगी का पहला फ़र्ज़ क़ुरआन में ग़रीबोंलाचारोंदुखियों और पीड़ितों से सहानुभूति और उनकी सहायता करना बताया गया है। क़ुरआन ने इन्सान के समाजी जीवन की बुनियाद ईश्वर की एकता और इन्सानी भाईचारे पर रखी है। क़ुरआन की सबसे बड़ी ख़ूबी यह है कि वह इन्सानियत केमानवता केटुकड़े नहीं करता। इस्लाम के इन्सानी भाईचारे की परिधि में कुल मानवजातिकुल इन्सान शामिल हैं और हर व्यक्ति को सदा सबकी अर्थात् आखिल मानवता की भलाईबेहतरी और कल्याण का ध्येय अपने सामने रखना चाहिए। क़ुरआन का कहना है कि सारा मानव समाज एक कुटुम्ब है। क़ुरआन की कई आयतों में नबियों और पैग़म्बरों को भी भाई शब्द से संबोधित किया गया है।

मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) साहब हर समय की नमाज़ के बाद आमतौर पर यह कहा करते थे— “मैं साक्षी हूँ कि दुनिया के सब आदमी एक-दूसरे के भाई हैं।” यह शब्द इतनी गहराई और भावुकता के साथ उनके गले से निकलते थे कि उनकी आँखों से टप-टप आंसू गिरने लगते थे।
इससे अधिक स्पष्ट और ज़ोरदार शब्दों में मानव-एकता और मानवजाति के एक कुटुम्ब होने का बयान नहीं किया जा सकता। कु़रआन की यह तालीम और इस्लाम के पैग़म्बर की यह मिसाल उन सारे रिवाजों और क़ायदे-क़ानूनों और उन सब क़ौमी,मुल्कीऔर नसली…गिरोहबन्दियों को एकदम ग़लत और नाजायज़ कर देती है जो एक इन्सान को दूसरे इन्सान से अलग करती हैं और मानव-मानव के बीच भेदभाव और झगड़े पैदा करती हैं।
पैग़म्बर मुहम्मदकु़रआन और हदीसइस्लामी दर्शन
(गांधी स्मृति एवं दर्शन समितिनई दिल्ली, 1994)

तरुण विजय सम्पादकहिन्दी साप्ताहिक पाञ्चजन्य
(
राष्ट्रीय स्वयं सेवक संघ पत्रिका)
इस्लाम के बारे में विचार

‘‘…क्या इससे इन्कार मुम्किन है कि पैग़म्बर मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) एक ऐसी जीवन-पद्धति बनाने और सुनियोजित करने वाली महान विभूति थे जिसे इस संसार ने पहले कभी नहीं देखाउन्होंने इतिहास की काया पलट दी और हमारे विश्व के हर क्षेत्र पर प्रभाव डाला। अतः अगर मैं कहूँ कि इस्लाम बुरा है तो इसका मतलब यह हुआ कि दुनिया भर में रहने वाले इस धर्म के अरबों (Billions) अनुयायियों के पास इतनी बुद्धि-विवेक नहीं है कि वे जिस धर्म के लिए जीते-मरते हैं उसी का विश्लेषण और उसकी रूपरेखा का अनुभव कर सके। इस धर्म के अनुयायियों ने मानव-जीवन के लगभग सारे क्षेत्रों में बड़ा नाम कमाया और हर किसी से उन्हें सम्मान मिला’’
‘‘हम उन (मुसलमानों) की किताबों काया पैग़म्बर (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) के जीवन-वृत्तांत काया उनके विकास व उन्नति के इतिहास का अध्ययन कम ही करते हैं… हममें से कितनों ने तवज्जोह के साथ उस परिस्थिति पर विचार किया है जो मुहम्मद केपैग़म्बर बनने के समय, 14 शताब्दियों पहले विद्यमान थे और जिनका बेमिसालप्रबल मुक़ाबला उन्होंने किया?जिस प्रकार से एक अकेले व्यक्ति के दृढ़ आत्म-बल तथा आयोजन-क्षमता ने हमारी ज़िन्दगियों को प्रभावित किया और समाज में उससे एक निर्णायक परिवर्तन आ गयावह असाधारण था। फिर भी इसकी गतिशीलता के प्रति हमारा जो अज्ञान है वह हमारे लिए एक ऐसे मूर्खता के सिवाय और कुछ नहीं है जिसे माफ़ नहीं किया जा सकता।’’

‘‘पैग़म्बर मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने अपने बचपन से ही बड़ी कठिनाइयाँ झेलीं। उनके पिता की मृत्युउनके जन्म से पहले ही हो गई और माता की भीजबकि वह सीर्फ़ छः (६) वर्ष के थे। लेकिन वह बहुत ही बुद्धिमान थे और अक्सर लोग आपसी झगड़े उन्हीं के द्वारा सुलझवाया करते थे। उन्होंने परस्पर युद्धरत क़बीलों के बीच शान्ति स्थापित की और सारे क़बीलों में ‘अल-अमीन’ (विश्वसनीय) कहलाए जाने का सम्मान प्राप्त किया जबकि उनकी आयु मात्रा 35 वर्ष थी।

इस्लाम का मूल-अर्थ ‘शान्ति’ था…। शीघ्र ही ऐसे अनेक व्यक्तियों ने इस्लाम ग्रहण कर लियाउनमें ज़ैद जैसे गु़लाम (Slave)भी थेजो सामाजिक न्याय से वंचित थे। मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) के ख़िलाफ़ तलवारों का निकल आना कुछ आश्चर्यजनक न थाजिसने उन्हें (जन्म-भूमि ‘मक्का’ से) मदीना प्रस्थान करने पर विवश कर दिया और उन्हें जल्द ही 900 की सेना काजिसमें 700 ऊँट और 300 घोड़े थे मुक़ाबला करना पड़ा। 17 रमज़ानशुक्रवार के दिन उन्होंने (शत्रु-सेना से) अपने300 अनुयायियों और 4 घोड़ों (की सेना) के साथ बद्र की लड़ाई लड़ी। बाक़ी वृत्तांत इतिहास का हिस्सा है। शहादतविजय,अल्लाह की मदद और (अपने) धर्म में अडिग विश्वास!’’
आलेख (‘Know Thy Neighbor, It’s Ramzan’
अंग्रेज़ी दैनिक एशियन एज’, 17 नवम्बर 2003 से उद्धृत

एम॰ एन॰ रॉय संस्थापक-कम्युनिस्ट पार्टीमैक्सिको कम्युनिस्ट पार्टीभारत
इस्लाम के बारे में विचार

‘‘इस्लाम के एकेश्वरवाद के प्रति अरब के बद्दुओं के दृढ़ विश्वास ने न केवल क़बीलों के बुतों को ध्वस्त कर दिया बल्कि वे इतिहास में एक ऐसी अजेय शक्ति बनकर उभरे जिसने मानवता को बुतपरस्ती की लानत से छुटकारा दिलाया। ईसाइयों के,संन्यास और चमत्कारों पर भरोसा करने की घातक प्रवृत्ति को झिकझोड़ कर रख दिया और पादरियों और हवारियों (मसीह के साथियों) के पूजा की कुप्रथा से भी छुटकारा दिला दिया।’’
‘‘सामाजिक बिखराव और आध्यात्मिक बेचैनी के घोर अंधकार वाले वातावरण में अरब के पैग़म्बर की आशावान एवं सशक्त घोषणा आशा की एक प्रज्वलित किरण बनकर उभरी। लाखों लोगों का मन उस नये धर्म की सांसारिक एवं पारलौकिक सफलता की ओर आकर्षित हुआ। इस्लाम के विजयी बिगुल ने सोई हुई निराश ज़िन्दगियों को जगा दिया। मानव-प्रवृति के स्वस्थ रुझान ने उन लोगों में भी हिम्मत पैदा की जो ईसा के प्रतिष्ठित साथियों के पतनशील होने के बाद संसार-विमुखता के अंधविश्वासी कल्पना के शिकार हो चुके थे। वे लोग इस नई आस्था से जुड़ाव महसूस करने लगे। इस्लाम ने उन लोगों को जो अपमान के गढ़े में पड़े हुए थे एक नई सोच प्रदान की। इसलिए जो उथल-पुथल पैदा हुई उससे एक नए समाज का गठन हुआ जिसमें प्रत्येक व्यक्ति को यह अवसर उपलब्ध था कि वह अपनी स्वाभाविक क्षमताओं के अनुसार आगे बढ़ सके और तरक़्क़ी कर सके। इस्लाम की जोशीली तहरीक और मुस्लिम विजयताओं के उदार रवैयों ने उत्तरी अफ़्रीक़ा की उपजाऊ भूमि में लोगों के कठिन परिश्रम के कारण जल्द ही हरियाली छा गई और लोगों की ख़ुशहाली वापस आ गई’’
‘‘…ईसाइयत के पतन ने एक नये शक्तिशाली धर्म के उदय को ऐतिहासिक ज़रूरत बना दिया था। इस्लाम ने अपने अनुयायियों को एक सुन्दर स्वर्ग की कल्पना ही नहीं दी बल्कि उसने दुनिया को पराजित करने का आह्वान भी किया। इस्लाम ने बताया कि जन्नत की ख़ुशियों भरी ज़िन्दगी इस दुनिया में भी संभव हैं। मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने अपने लोगों को क़ौमी एकता के धागे में ही नहीं पिरोया बल्कि पूरी क़ौम के अन्दर वह भाव और जोश पैदा किया कि वे हर जगह इन्क़िलाब का नारा बुलन्द करे जिसे सुनकर पड़ोसी देशों के शोषित/पीड़ित लोगों ने भी इस्लाम का आगे बढ़कर स्वागत किया।

इस्लाम की इस सफलता का कारण आध्यात्मिक भी थासामाजिक भी था और राजनीतिक भी।

इसी बात पर ज़ोर देते हुए गिबन कहता है: ज़रतुश्त की व्यवस्था से अधिक स्वच्छ एवं पारदर्शी और मूसा के क़ानूनों से कहीं अधिक लचीला मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) का यह धर्मबुद्धि एवं विवेक से अधिक निकट है। अंधविश्वास और पहेली से इसकी तुलना नहीं की जा सकती जिसने सातवीं शताब्दी में मूसा की शिक्षाओं को बदनुमा बना दिया था…।’’
‘‘…हज़रत मुहम्मद (सल्ल0) का धर्म एकेश्वरवाद पर आधारित है और एकेश्वरवाद की आस्था ही उसकी ठोस बुनियाद भी है। इसमें किसी प्रकार के छूट की गुंजाइश नहीं और अपनी इसी विशेषता के कारण वह धर्म का सबसे श्रेष्ठ पैमाना भी बना। दार्शनिक दृष्टिकोण से भी एकेश्वरवाद की कल्पना ही इस धर्म की बुनियाद है। लेकिन एकेश्वरवाद की यह कल्पना भी अनेक प्रकार के अंधविश्वास को जन्म दे सकती है यदि यह दृष्टिकोण सामने न हो कि अल्लाह ने सृष्टि की रचना की है और इस सृष्टि से पहले कुछ नहीं था।
प्राचीन दार्शनिकचाहे वे यूनान के यहों या भारत केउनके यहां सृष्टि की रचना की यह कल्पना नहीं मिलती। यही कारण है कि जो धर्म उस प्राचीन दार्शनिक सोच से प्रभावित थे वे एकेश्वरवाद का नज़रिया क़ायम नहीं कर सके। जिसकी वजह से सभी बड़े-बड़े धर्मचाहे वह हिन्दू धर्म होयहूदियत हो या ईसाइयतधीरे-धीरे कई ख़ुदाओं को मानने लगे। यही कारण है कि वे सभी धर्म अपनी महानता खो बैठे। क्योंकि कई ख़ुदाओं की कल्पना सृष्टि को ख़ुदा के साथ सम्मिलित कर देती है जिससे ख़ुदा की कल्पना पर ही प्रश्न चिन्ह लग जाता है। इससे पैदा करने की कल्पना ही समाप्त हो जाती हैइसलिए ख़ुदा की कल्पना भी समाप्त हो जाती है। यदि यह दुनिया अपने आप स्थापित हो सकती है तो यह ज़रूरी नहीं कि उसका कोई रचयिता भी हो और जब उसके अन्दर से पैदा करने की क्षमता समाप्त हो जाती है तो फिर ख़ुदा की भी आवश्यकता नहीं रहती।

मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) का धर्म इस कठिनाई को आसानी से हल कर लेता है। यह ख़ुदा की कल्पना को आरंभिक बुद्धिवादियों की कठिनाइयों से आज़ाद करके यह दावा करता है कि अल्लाह ने ही सृष्टि की रचना की है। इस रचना से पहले कुछ नहीं था। अब अल्लाह अपनी पूरी शान और प्रतिष्ठा के साथ विराजमान हो जाता है। उसके अन्दर इस चीज़ की क्षमता एवं शक्ति है कि न केवल यह कि वह इस सृष्टि की रचना कर सकता है बल्कि अनेक सृष्टि की रचना करने की क्षमता रखता है। यह उसके शक्तिशाली और हैयुल क़ैयूम होने की दलील है। ख़ुदा को इस तरह स्थापित करने और स्थायित्व प्रदान करने की कल्पना ही मुहम्मद(सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) का कारनामा है।

अपने इस कारनामे के कारण ही इतिहास ने उन्हें सबसे स्वच्छ एवं पाक धर्म की बुनियाद रखने वाला माना है। क्योंकि दूसरे सभी धर्म अपने समस्त भौतिक/प्राभौतिक कल्पनाओंधार्मिक बारीकियों और दार्शनिक तर्कों/कुतर्कों के कारण न केवल त्रुटिपूर्ण धर्म हैं बल्कि केवल नाम के धर्म हैं…।’’
‘‘…यह बात तो बिल्कुल स्पष्ट है कि भारत में मुसलमानों की विजय के समय ऐसे लाखों लोग यहां मौजूद थे जिनके नज़दीक हिन्दू क़ानूनों के प्रति व़फादार रहने का कोई औचित्य नहीं था। और ब्राह्मणों की कट्टर धार्मिकता एवं परम्पराओं की रक्षा उनके नज़दीक निरर्थक थे। ऐसे सभी लोग अपनी हिन्दू विरासत को इस्लाम के समानता के क़ानून के लिए त्यागने को तैयार थे जो उन्हें हर प्रकार की सुरक्षा भी उपलब्ध करा रहा था ताकि वे कट्टर हिन्दुत्ववादियों के अत्याचार से छुटकारा हासिल कर सके ।
फिर भी हैवेल (Havel) इस बात से संतुष्ट नहीं था। हार कर उसने कहा: ‘‘यह इस्लाम का दर्शनशास्त्र नहीं था बल्कि उसकी सामाजिक योजना थी जिसके कारण लाखों लोगों ने इस धर्म को स्वीकार कर लिया। यह बात बिल्कुल सही है कि आम लोग दर्शन से प्रभावित नहीं होते। वे सामाजिक योजनाओं से अधिक प्रभावित होते हैं जो उन्हें मौजूदा ज़िन्दगी से बेहतर ज़िन्दगी की ज़मानत दे रहा था। इस्लाम ने जीवन की ऐसी व्यवस्था दी जो करोड़ों लोगों की ख़ुशी की वजह बना।’’
‘‘….ईरानी और मुग़ल विजेयताओं के अन्दर वह पारम्परिक उदारता और आज़ादपसन्दी मिलती है जो आरंभिक मुसलमानों की विशेषता थी। केवल यह सच्चाई कि दूर-दराज़ के मुट्ठी भर हमलावर इतने बड़े देश का इतनी लंबी अवधि तक शासक बने रहे और उनके अक़ीदे को लाखों लोगों ने अपनाकर अपना धर्म परिवर्तन कर लियायह साबित करने के लिए काफ़ी है कि वे भारतीय समाज की बुनियादी आवश्यकताओं को पूरा कर रहे थे। भारत में मुस्लिम शक्ति केवल कुछ हमलावरों की बहादुरी के कारण संगठित नहीं हुई थी बल्कि इस्लामी क़ानून के विकासमुखी महत्व और उसके प्रचार के कारण हुई थी। ऐसा हैवेल जैसा मुस्लिम विरोधी इतिहासकार भी मानता है। मुसलमानों की राजनैतिक व्यवस्था का हिन्दू सामाजिक जीवन पर दो तरह का प्रभाव पड़ा। इससे जाति-पाति के शिकंजे और मज़बूत हुए जिसके कारण उसके विरुद्ध बग़ावत शुरू हो गई। साथ ही निचली और कमज़ोर जातियों के लिए बेहतर जीवन और भविष्य की ज़मानत उन्हें अपना धर्म छोड़कर नया धर्म अपनाने के लिए मजबूर करती रही। इसी की वजह से शूद्र न केवल आज़ाद हुए बल्कि कुछ मामलों में वे ब्राह्मणों के मालिक भी बन गए।’’
हिस्टोरिकल रोल ऑफ इस्लाम ऐन एस्से ऑन इस्लामिक कल्चर
क्रिटिकल क्वेस्ट पब्लिकेशन कलकत्ता-1939 से उद्धृत

राजेन्द्र नारायण लाल
(एम॰ ए॰ (इतिहास) काशी हिन्दू विश्वविद्यालय)
 इस्लाम के बारे में विचार

‘‘…संसार के सब धर्मों में इस्लाम की एक विशेषता यह भी है कि इसके विरुद्ध जितना भ्रष्ट प्रचार हुआ किसी अन्य धर्म के विरुद्ध नहीं हुआ । सबसे पहले तो महाईशदूत मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) साहब की जाति कु़रैश ही ने इस्लाम का विरोध किया और अन्य कई साधनों के साथ भ्रष्ट प्रचार और अत्याचार का साधन अपनाया। यह भी इस्लाम की एक विशेषता ही है कि उसके विरुद्ध जितना प्रचार हुआ वह उतना ही फैलता और उन्नति करता गया तथा यह भी प्रमाण हैइस्लाम के ईश्वरीय सत्य-धर्म होने का। इस्लाम के विरुद्ध जितने प्रकार के प्रचार किए गए हैं और किए जाते हैं उनमें सबसे उग्र यह है कि इस्लाम तलवार के ज़ोर से फैलायदि ऐसा नहीं है तो संसार में अनेक धर्मों के होते हुए इस्लाम चमत्कारी रूप से संसार में कैसे फैल गया?
इस प्रश्न या शंका का संक्षिप्त उत्तर तो यह है कि जिस काल में इस्लाम का उदय हुआ उन धर्मों के आचरणहीन अनुयायियों ने धर्म को भी भ्रष्ट कर दिया था। अतः मानव कल्याण हेतु ईश्वर की इच्छा द्वारा इस्लाम सफल हुआ और संसार में फैलाइसका साक्षी इतिहास है…।’’
‘‘…इस्लाम को तलवार की शक्ति से प्रसारित होना बताने वाले (लोग) इस तथ्य से अवगत होंगे कि अरब मुसलमानों के ग़ैर-मुस्लिम विजेता तातारियों ने विजय के बाद विजित अरबों का इस्लाम धर्म स्वयं ही स्वीकार कर लिया। ऐसी विचित्र घटना कैसे घट गईतलवार की शक्ति जो विजेताओं के पास थी वह इस्लाम से विजित क्यों हो गई…?’’
‘‘…मुसलमानों का अस्तित्व भारत के लिए वरदान ही सिद्ध हुआ। उत्तर और दक्षिण भारत की एकता का श्रेय मुस्लिम साम्राज्यऔर केवल मुस्लिम साम्राज्य को ही प्राप्त है। मुसलमानों का समतावाद भी हिन्दुओं को प्रभावित किए बिना नहीं रहा। अधिकतर हिन्दू सुधारक जैसे रामानुजरामानन्दनानकचैतन्य आदि मुस्लिम-भारत की ही देन है। भक्ति आन्दोलन जिसने कट्टरता को बहुत कुछ नियंत्रित कियासिख धर्म और आर्य समाज जो एकेश्वरवादी और समतावादी हैंइस्लाम ही के प्रभाव का परिणाम हैं। समता संबंधी और सामाजिक सुधार संबंधी सरकारी क़ानून जैसे अनिवार्य परिस्थिति में तलाक़ और पत्नी और पुत्री का सम्पत्ति में अधिकतर आदि इस्लाम से ही प्रेरित हैं’’
 ‘इस्लाम एक स्वयंसिद्ध ईश्वरीय जीवन व्यवस्था
पृष्ठ 40,42,52 से उद्धृत
साहित्य सौरभनई दिल्ली, 2007 ई॰

लाला काशी राम चावला
 इस्लाम के बारे में विचार

‘‘…न्याय ईश्वर के सबसे बड़े गुणों में से एक अतिआवश्यक गुण है। ईश्वर के न्याय से ही संसार का यह सारा कार्यालय चल रहा है। उसका न्याय सम्पूर्ण ब्रह्माण्ड के कण-कण में काम कर रहा है। न्याय का शब्दिक अर्थ है एक वस्तु के दो बराबर-बराबर भागजो तराज़ू में रखने से एक समान उतरेंउनमें रत्ती भर फर्क न हो और व्यावहारतः हम इसका मतलब यह लेते हैं कि जो बात कही जाए या जो काम किया जाए वह सच्चाई पर आधारित होउनमें तनिक भी पक्षपात या किसी प्रकार की असमानता न हो’’
‘‘…इस्लाम में न्याय को बहुत महत्व दिया गया है और कु़रआन में जगह-जगह मनुष्य को न्याय करने के आदेश मौजूद हैं। इसमें जहाँ गुण संबंधी ईश्वर के विभिन्न नाम आए हैंवहाँ एक नाम आदिल अर्थात् न्यायकर्ता भी आया है। ईश्वर चूँकि स्वयं न्यायकर्ता हैवह अपने बन्दों से भी न्याय की आशा रखता है। पवित्र क़ुरआन में है कि ईश्वर न्याय की ही बात कहता है और हर बात का निर्णय न्याय के साथ ही करता है’’
‘‘…इस्लाम में पड़ोसी के साथ अच्छे व्यवहार पर बड़ा बल दिया गया है। परन्तु इसका उद्देश्य यह नहीं है कि पड़ोसी की सहायता करने से पड़ोसी भी समय पर काम आएअपितु इसे एक मानवीय कर्तव्य ठहराया गया हैइसे आवश्यक क़रार दिया गया है और यह कर्तव्य पड़ोसी ही तक सीमित नहीं है बल्कि किसी साधारण मनुष्य से भी असम्मानजनक व्यवहार न करने की ताकीद की गई है’’
‘‘…निस्सन्देह अन्य धर्मों में हर एक मनुष्य को अपने प्राण की तरह प्यार करनाअपने ही समान समझनासब की आत्मा में एक ही पवित्र ईश्वर के दर्शन करना आदि लिखा है। किन्तु स्पष्ट रूप से अपने पड़ोसी के साथ अच्छा व्यवहार करने और उसके अत्याचारों को भी धैर्यपूर्वक सहन करने के बारे में जो शिक्षा पैग़म्बरे इस्लाम मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने खुले शब्दों में दी है वह कहीं और नहीं पाई जाती’’
इस्लाममानवतापूर्ण ईश्वरीय धर्म
पृ॰ 28,41,45 से उद्धृत मधुर सन्देश संगमनई दिल्ली, 2003 ई॰

पेरियार ई॰ वी॰ रामास्वामी
(
राज्य सरकार द्वारा पुरस्कृतपत्रकारसमाजसेवक व नेतातमिलनाडु)
इस्लाम के बारे में विचार

:]
‘‘हमारा शूद्र होना एक भयंकर रोग हैयह कैंसर जैसा है। यह अत्यंत पुरानी शिकायत है। इसकी केवल एक ही दवा हैऔर वह है इस्लाम। इसकी कोई दूसरी दवा नहीं है। अन्यथा हम इसे झेलेंगेइसे भूलने के लिए नींद की गोलियाँ लेंगे या इसे दबा कर एक बदबूदार लाश की तरह ढोते रहेंगे। इस रोग को दूर करने के लिए उठ खड़े हों और इन्सानों की तरह सम्मानपूर्वक आगे बढ़ें कि केवल इस्लाम ही एक रास्ता है’’
‘‘…अरबी भाषा में इस्लाम का अर्थ है शान्तिआत्म-समर्पण या निष्ठापूर्ण भक्ति। इस्लाम का मतलब है सार्वजनिक भाईचारा,बस यही इस्लाम है। सौ या दो सौ वर्ष पुराना तमिल शब्द-कोष देखें। तमिल भाषा में कदावुल देवता (Kadavul) का अर्थ है एक ईश्वरनिराकारशान्तिएकताआध्यात्मिक समर्पण एवं भक्ति। ‘कदावुल’ (Kadavul) द्रविड़ शब्द है। अंग्रेज़ी भाषा का शब्द गॉड (God) अरबी भाषा में ‘अल्लाह’ है। ….भारतीय मुस्लिम इस्लाम की स्थापना करने वाले नहीं बल्कि उसका एक अंश हैं’’
‘‘…मलायाली मोपले (Malayali Mopillas), मिस्रीजापानीऔर जर्मन मुस्लिम भी इस्लाम का अंश हैं। मुसलमान एक बड़ा गिरोह है। इन में अफ़्रीक़ीहब्शी और नेग्रो मुस्लिम भी है। इन सारे लोगों के लिए अल्लाह एक ही हैजिसका न कोई आकार हैन उस जैसा कोई और हैउसके न पत्नी है और न बच्चेऔर न ही उसे खाने-पीने की आवश्यकता है।’’
‘‘…जन्मजात समानतासमान अधिकारअनुशासन इस्लाम के गुण हैं। अन्तर के कारण यदि हैं तो वे वातावरणप्रजातियाँ और समय हैं। यही कारण है कि संसार में बसने वाले लगभग साठ करोड़ मुस्लिम एक-दूसरे के लिए जन्मजात भाईचारे की भावना रखते हैं। अतः जगत इस्लाम का विचार आते ही थरथरा उठता है’’
‘‘…इस्लाम की स्थापना क्यों हुईइसकी स्थापना अनेकेश्वरवाद और जन्मजात असमानताओं को मिटाने के लिए और ‘एक ईश्वरएक इन्सान’ के सिद्धांत को लागू करने के लिए हुईजिसमें किसी अंधविश्वास या मूर्ति-पूजा की गुंजाइश नहीं है। इस्लाम इन्सान को विवेकपूर्ण जीवन व्यतीत करने का मार्ग दिखाता है’’
‘‘…इस्लाम की स्थापना बहुदेववाद और जन्म के आधार पर विषमता को समाप्त करने के लिए हुई थी। ‘एक ईश्वर और एक मानवजाति’ के सिद्धांत को स्थापित करने के लिए हुई थीसारे अंधविश्वासों और मूर्ति पूजा को ख़त्म करने के लिए और युक्ति-संगतबुद्धिपूर्ण (Rational) जीवन जीने के लिए नेतृत्व प्रदान करने के लिए इसकी स्थापना हुई थी’’
द वे ऑफ सैल्वेशन’ पृ॰ 13,14,21 से उद्धृत
(18 मार्च 1947 को तिरुचिनपल्ली में दिया गया भाषण)
अमन पब्लिकेशन्सदिल्ली, 1995 ई॰

डॉ॰ बाबासाहब भीमराव अम्बेडकर
(
बैरिस्टरअध्यक्ष-संविधान निर्मात्री सभा)
 इस्लाम के बारे में विचार

इस्लाम धर्म सम्पूर्ण एवं सार्वभौमिक धर्म है जो कि अपने सभी अनुयायियों से समानता का व्यवहार करता है (अर्थात् उनको समान समझता है). यही कारण है कि सात करोड़ अछूत हिन्दू धर्म को छोड़ने के लिए सोच रहे हैं और यही कारण था कि गाँधी जी के पुत्र (हरिलाल) ने भी इस्लाम धर्म ग्रहण किया था. यह तलवार नहीं थी कि इस्लाम धर्म का इतना प्रभाव हुआ बल्कि वास्तव में यह थी सच्चाई और समानता जिसकी इस्लाम शिक्षा देता है …”
दस स्पोक अम्बेडकर’ चौथा खंडभगवान दास पृष्ठ 144-145 से उद्धृत

कोडिक्कल चेलप्पा (बैरिस्टरअध्यक्ष-संविधान सभा)
 इस्लाम के बारे में विचार

‘‘…मानवजाति के लिए अर्पितइस्लाम की सेवाएं महान हैं। इसे ठीक से जानने के लिए वर्तमान के बजाय 1400 वर्ष पहले की परिस्थितियों पर दृष्टि डालनी चाहिएतभी इस्लाम और उसकी महान सेवाओं का एहसास किया जा सकता है। लोग शिक्षाज्ञान और संस्कृति में उन्नत नहीं थे। साइंस और खगोल विज्ञान का नाम भी नहीं जानते थे। संसार के एक हिस्से के लोगदूसरे हिस्से के लोगों के बारे में जानते न थे। वह युग ‘अंधकार युग’ (Dark-Age) कहलाता हैजो सभ्यता की कमीबर्बरता और अन्याय का दौर थाउस समय के अरबवासी घोर अंधविश्वास में डूबे हुए थे। ऐसे ज़माने मेंअरब मरुस्थलदृजो विश्व के मध्य में है जहा (पैग़म्बर) मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) पैदा हुए।’’
पैग़म्बर मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने पूरे विश्व को आह्वान दिया कि ‘‘ईश्वर ‘एक’ है और सारे इन्सान बराबर हैं।’’ (इस एलान पर) स्वयं उनके अपने रिश्तेदारोंदोस्तों और नगरवासियों ने उनका विरोध किया और उन्हें सताया।’’
‘‘पैग़म्बर मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) हर सतह पर और राजनीतिअर्थप्रशासनन्यायवाणिज्यविज्ञानकला,संस्कृति और समाजोद्धार में सफल हुए और एक समुद्र से दूसरे समुद्र तकस्पेन से चीन तक एक महानअद्वितीय संसार की संरचना करने में सफलता प्राप्त कर ली।
इस्लाम का अर्थ है ‘शान्ति का धर्म। इस्लाम का अर्थ ‘ईश्वर के विधान का आज्ञापालन’ भी है। जो व्यक्ति शान्ति-प्रेमी हो और क़ुरआन में अवतरित ‘ईश्वरीय विधान’ का अनुगामी हो, ‘मुस्लिम’ कहलाता है। क़ुरआन सिर्फ ‘एकेश्वरत्व’ और ‘मानव-समानताकी ही शिक्षा नहीं देता बल्कि आपसी भाईचाराप्रेमधैर्य और आत्म-विश्वास का भी आह्नान करता है।
इस्लाम के सिद्धांत और व्यावहारिक कर्म वैश्वीय शान्ति व बंधुत्व को समाहित करते हैं और अपने अनुयायियों में एक गहरे रिश्ते की भावना को क्रियान्वित करते हैं। यद्यपि कुछ अन्य धर्म भी मानव-अधिकार व सम्मान की बात करते हैंपर वे आदमी कोआदमी को गु़लाम बनाने से या वर्ण व वंश के आधार परदूसरों पर अपनी महानता व वर्चस्व का दावा करने से रोक न सके। लेकिन इस्लाम का पवित्र ग्रंथ स्पष्ट रूप से कहता है कि किसी इन्सान को दूसरे इन्सान की पूजा करनीदूसरे के सामने झुकनामाथा टेकना नहीं चाहिए।
हर व्यक्ति के अन्दर क़ुरआन द्वारा दी गई यह भावना बहुत गहराई तक जम जाती है। किसी के भीईश्वर के अलावा किसी और के सामने माथा न टेकने की भावना व विचारधाराऐसे बंधनों को चकना चूर कर देती है जो इन्सानों को ऊँच-नीच और उच्च-तुच्छ के वर्गों में बाँटते हैं और इन्सानों की बुद्धि-विवेक को गु़लाम बनाकर सोचने-समझने की स्वतंत्रता का हनन करते हैं। बराबरी और आज़ादी पाने के बाद एक व्यक्ति एक परिपूर्णसम्मानित मानव बनकरबस इतनी-सी बात पर समाज में सिर उठाकर चलने लगता है कि उसका ‘झुकना’ सिर्फ अल्लाह के सामने होता है।
बेहतरीन मौगनाकार्टा (Magna Carta) जिसे मानवजाति ने पहले कभी नहीं देखा था, ‘पवित्र क़ुरआन’ है। मानवजाति के उद्धार के लिए पैग़म्बर मुहम्मद द्वारा लाया गया धर्म एक महासागर की तरह है। जिस तरह नदियाँ और नहरें सागर-जल में मिलकर एक समानअर्थात सागर-जल बन जाती हैं उसी तरह हर जाति और वंश में पैदा होने वाले इन्सानवे जो भी भाषा बोलते हों,उनकी चमड़ी का जो भी रंग होइस्लाम ग्रहण करकेसारे भेदभाव मिटाकर और मुस्लिम बनकर ‘एक’ समुदाय (उम्मत)एक अजेय शक्ति बन जाते हैं।’’
‘‘ईश्वर की सृष्टि में सारे मानव एक समान हैं। सब एक ख़ुदा के दास और अन्य किसी के दास नहीं होते चाहे उनकी राष्ट्रीयता और वंश कुछ भी होवह ग़रीब हों या धनवान।
‘‘वह सिर्फ़ ख़ुदा है जिसने सब को बनाया है।’’
ईश्वर की नेमतें तमाम इन्सानों के हित के लिए हैं। उसने अपनी असीमअपार कृपा से हवापानीआगऔर चाँद व सूरज (की रोशनी तथा ऊर्जा) सारे इन्सानों को दिया है। खानेसोनेबोलनेसुननेजीने और मरने के मामले में उसने सारे इन्सानों को एक जैसा बनाया है। हर एक की रगों में एक (जैसा) ही ख़ून प्रवाहित रहता है। इससे भी महत्वपूर्ण बात यह है कि सभी इन्सान एक ही माता-पिता आदम और हव्वा की संतान हैं अतः उनकी नस्ल एक ही हैवे सब एक ही समुदाय हैं। यह है इस्लाम की स्पष्ट नीति। फिर एक के दूसरे पर वर्चस्व व बड़प्पन के दावे का प्रश्न कहाँ उठता है?
इस्लाम ऐसे दावों का स्पष्ट रूप में खंडन करता है। अलबत्ताइस्लाम इन्सानों में एक अन्तर अवश्य करता है,
अच्छे’ इन्सान और ‘बुरे’ इन्सान का अन्तरअर्थात्जो लोग ख़ुदा से डरते हैंऔर जो नहीं डरतेउनमें अन्तर। इस्लाम एलान करता है कि ईशपरायण व्यक्ति वस्तुतः महानसज्जन और आदरणीय है। दरअस्ल इसी अन्तर को बुद्धि-विवेक की स्वीकृति भी प्राप्त है। और सभी बुद्धिमानविवेकशील मनुष्य इस अन्तर को स्वीकार करते हैं।
इस्लाम किसी भी जातिवंश पर आधारित भेदभाव को बुद्धि के विपरीत और अनुचित क़रार देकर रद्द कर देता है। इस्लाम ऐसे भेदभाव के उन्मूलन का आह्वान करता है।’’
‘‘वर्णभाषाराष्ट्ररंग और राष्ट्रवाद की अवधारणाएँ बहुत सारे तनावझगड़ों और आक्रमणों का स्रोत बनती हैं। इस्लाम ऐसी तुच्छतंग और पथभ्रष्ट अवधारणाओं को ध्वस्त कर देता है।’’
लेट् अस मार्च टुवर्ड्स इस्लाम’ पृष्ठ 26-29, 34-35 से उद्धृत
इस्लामिया एलाकिया पानमनानीमैलदुतुराइतमिलनाडु, 1990 ई॰
(श्री कोडिक्कल चेलप्पा ने बाद में इस्लाम धर्म स्वीकार कर लिया था)

स्वामी विवेकानंद (विश्व-विख्यात धर्मविद्)
इस्लाम के बारे में विचार

मुहम्मद साहब (इन्सानी) बराबरीइन्सानी भाईचारे और तमाम मुसलमानों के भाईचारे के पैग़म्बर थे। … जैसे ही कोई व्यक्ति इस्लाम स्वीकार करता है पूरा इस्लाम बिना किसी भेदभाव के उसका खुली बाहों से स्वागत करता हैजबकि कोई दूसरा धर्म ऐसा नहीं करता। …
हमारा अनुभव है कि यदि किसी धर्म के अनुयायियों ने इस (इन्सानी) बराबरी को दिन-प्रतिदिन के जीवन में व्यावहारिक स्तर पर बरता है तो वे इस्लाम और सिर्फ़ इस्लाम के अनुयायी हैं। … मुहम्मद साहब ने अपने जीवन-आचरण से यह बात सिद्ध कर दी कि मुसलमानों में भरपूर बराबरी और भाईचारा है। यहाँ वर्णनस्लरंग या लिंग (के भेद) का कोई प्रश्न ही नहीं। … इसलिए हमारा पक्का विश्वास है कि व्यावहारिक इस्लाम की मदद लिए बिना वेदांती सिद्धांतचाहे वे कितने ही उत्तम और अद्भुत हों विशाल मानव-जाति के लिए मूल्यहीन (Valueless) हैं

 संत प्राणनाथ जी
 इस्लाम के बारे में विचार


 (मारफत सागर क़यामतनामा) में कहते हैं

आयतें हदीसें सब कहेखुदा एक मुहंमद बरहक।
और न कोई आगे पीछेबिना मुहंमद  बुजरक ।
अर्थात् क़ुरआन हदीस यही कहती है कि अल्लाह मात्र एक है और मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम का संदेश सत्य है इन्हीं के बताए हुए नियम का पालन करके सफलता प्राप्त की जा सकती है। मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को माने बिना सफलता का कोई पथ नहीं।

श्री तुलसी दास जी
इस्लाम के बारे में विचार

श्री वेद व्यास जी ने 18 पुराणों में से एक पुराण में काक मशुण्ड जी और गरूड जी की बात चीत को संस्कृत में लेख बद्ध किया है जिसे श्री तुलसी दास जी इस बात-चीत को हिन्दी में अनुवाद किया है। इसी अनुवाद के 12वें स्कन्द्ध 6 काण्ड में कहा गया है कि गरुड़ जी सुनो-

यहाँ न पक्ष बातें कुछ राखों। वेद पुराण संत मत भाखों।।
देश अरब भरत लता सो होई। सोधल भूमि गत सुनो धधराई।।

अनुवादः इस अवसर पर मैं किसी का पक्ष न लूंगा। वेद पुराण और मनीषियों का जो धर्म है वही बयान करूंगा। अरब भू-भाग जो भरत लता अर्थात् शुक्र ग्रह की भांति चमक रहा है उसी सोथल भूमि में वह उत्पन्न होंगे।
इस प्रकार हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम की विशेषताओं का उल्लेख करने के बाद अन्तिम पंक्ति में कहते हैं -
तब तक जो सुन्दरम चहे कोई।
बिना  मुहम्मद  पार न कोई।।

यदि कोई सफलता प्राप्त करना चाहता है तो मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम को स्वीकार ले। अन्यथा कोई बेड़ा उनके बिना पार न होगा।

मुंशी प्रेमचंद (प्रसिद्ध साहित्यकार)
 इस्लाम के बारे में विचार

जहाँ तक हम जानते हैंकिसी धर्म ने न्याय को इतनी महानता नहीं दी जितनी इस्लाम ने। …इस्लाम की बुनियाद न्याय पर रखी गई है। वहाँ राजा और रंकअमीर और ग़रीबबादशाह और फ़क़ीर के लिए ‘केवल एक’ न्याय है। किसी के साथ रियायत नहीं किसी का पक्षपात नहीं। ऐसी सैकड़ों रिवायतें पेश की जा सकती है जहाँ बेकसों ने बड़े-बड़े बलशाली आधिकारियों के मुक़ाबले में न्याय के बल से विजय पाई है। ऐसी मिसालों की भी कमी नहीं जहाँ बादशाहों ने अपने राजकुमारअपनी बेगम,यहाँ तक कि स्वयं अपने तक को न्याय की वेदी पर होम कर दिया है। संसार की किसी सभ्य से सभ्य जाति की न्याय-नीति कीइस्लामी न्याय-नीति से तुलना कीजिएआप इस्लाम का पल्ला झुका(भारी) हुआ पाएँगे’’
जिन दिनों इस्लाम का झंडा कटक से लेकर डेन्युष तक और तुर्किस्तान से लेकर स्पेन तक फ़हराता था मुसलमान बादशाहों की धार्मिक उदारता इतिहास में अपना सानी (समकक्ष) नहीं रखती थी। बड़े से बड़े राज्यपदों पर ग़ैर-मुस्लिमों को नियुक्त करना तो साधारण बात थीमहाविद्यालयों के कुलपति तक ईसाई और यहूदी होते थे…”
यह निर्विवाद रूप से कहा जा सकता है कि इस (समता) के विषय में इस्लाम ने अन्य सभी सभ्यताओं को बहुत पीछे छोड़ दिया है। वे सिद्धांत जिनका श्रेय अब कार्ल मार्क्स और रूसो को दिया जा रहा है वास्तव में अरब के मरुस्थल में प्रसूत हुए थे और उनका जन्मदाता अरब का वह उम्मी (अनपढ़निरक्षर व्यक्ति) था जिसका नाम मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) है। मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) के सिवाय संसार में और कौन धर्म प्रणेता हुआ है जिसने ख़ुदा के सिवाय किसी मनुष्य के सामने सिर झुकाना गुनाह ठहराया है…?”
कोमल वर्ग के साथ तो इस्लाम ने जो सलूक किए हैं उनको देखते हुए अन्य समाजों का व्यवहार पाशविक जान पड़ता है। किस समाज में स्त्रियों का जायदाद पर इतना हक़ माना गया है जितना इस्लाम में? … हमारे विचार में वही सभ्यता श्रेष्ठ होने का दावा कर सकती है जो व्यक्ति को अधिक से अधिक उठने का अवसर दे। इस लिहाज़ से भी इस्लामी सभ्यता को कोई दूषित नहीं ठहरा सकता।
हज़रत (मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ) ने फ़रमायाकोई मनुष्य उस वक़्त तक मोमिन (सच्चा मुस्लिम) नहीं हो सकता जब तक वह अपने भाई-बन्दों के लिए भी वही न चाहे जितना वह अपने लिए चाहता है। … जो प्राणी दूसरों का उपकार नहीं करता ख़ुदा उससे ख़ुश नहीं होता। उनका यह कथन सोने के अक्षरों में लिखे जाने योग्य है.

‘‘ईश्वर की समस्त सृष्टि उसका परिवार है वही प्राणी ईश्वर का (सच्चा) भक्त है जो ईश्वर के बन्दों के साथ नेकी करता है।’’ …अगर तुम्हें ईश्वर की बन्दगी करनी है तो पहले उसके बन्दों से मुहब्बत करो।’’
सूद (ब्याज) की पद्धति ने संसार में जितने अनर्थ किए हैं और कर रही है वह किसी से छिपे नहीं है। इस्लाम वह अकेला धर्म है जिसने सूद को हराम (अवैध) ठहराया है …”
इस्लामी सभ्यता’ साप्ताहिक प्रताप विशेषांक दिसम्बर 1925




Historical Mosque
In
Kaashi Banaaras

यह एक ऐसा इतिहास है जिसे पन्नो से तो हटा दिया गया है लेकिन निष्पक्ष इन्सान और हक परस्त लोगों के दिलो में से चाहे वो किसी भी कौम का इन्सान होमिटाया नहीं जा सकताऔर क़यामत तक इंशा अल्लाह ! मिटाया नहीं जा सकेगा.

मुसलमान बादशाह के हुकूमत में 
दुसरे मजहब के लिए इंसाफ

हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह  की हुकूमत में काशी बनारस में एक पंडित की लड़की थी जिसका नाम शकुंतला थाउस लड़की को एक मुसलमान जाहिल सेनापति ने अपनी हवस का शिकार बनाना चाहाऔर उस के बाप से कहा के तेरी बेटी को डोली में सजा कर मेरे महल पे ८ दीन में भेज देना. पंडित ने यह बात अपनी बेटी से कही. उनके पास कोई रास्ता नहीं था. और पंडित से बेटीने कहा के १ महीने का वक़्त ले लो कोई भी रास्ता निकल जायेगा.

पंडित ने सेनापति से जाकर कहा के, “मेरे पास इतने पैसे नहीं है के मै ८ दीन में सजा कर लड़की को भेज सकू. मुझे महीने का वक़्त दो.
सेनापति ने कहा ठीक है ! ठीक महीने के बाद भेज देना”.
पंडित ने अपनी लड़की से जाकर कहा वक़्त मिल गया है अब ?”
लड़की ने मुग़ल सहजादे का लिबास पहना और अपनी सवारी को लेकर दिल्ली की तरफ निकल गयी. कुछ दीन के बाद दिल्ली पोह्चीवो दीन जुमा का दीन था. और जुमा के दीन हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह नमाज़ के बाद जब मस्जिद से बहार निकलते तो लोग अपनी फरियाद एक चिट्ठी में लिख कर मस्जिद के सीढियों के दोनों तरफ खड़े रहते. और हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह वो चिट्ठिया उनके हाथ से लेते जातेऔर फिर कुछ दिनों में फैसला (इंसाफ) फरमाते.
वो लड़की भी इस क़तार में जाकर खड़ी हो गयीउस के चहरे पे नकाब थाऔर लड़के का लिबास (ड्रेस) पहना हुआ थाजब उसके हाथ से चिट्ठी लेने की बारी आई तब हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह ने अपने हाथ पर एक कपडा दाल कर उसके हाथ से चिट्ठी ली.
तब वो बोली महाराज मेरे साथ यह नाइंसाफी क्यों ? सब लोगो से आपने सीधे तरीके से चिट्ठी ली और मेरे पास से हाथो पर कपडा रख कर ???
तब हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह ने फ़रमाया के “इस्लाम में गैर महराम (पराई औरतो) को हाथ लगाना भी हराम हैऔर मै जानता हु तु लड़का नहीं लड़की है.
और वोह लड़की बादशाह के साथ कुछ दीन तक ठहरीऔर अपनी फरियाद सुनाई,
बादशाह हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह ने उस से कहा “बेटी तू लौट जा तेरी डोली सेनापति के महल पोहोचेगी अपने वक़्त पर”.
लड़की सोच में पड गयी के यह क्या ? वो अपने घर लौटी और उस के बाप पंडित ने कहा क्या हुआ बेटीतो वो बोली एक ही रास्ता था मै हिंदुस्तान के बादशाह के पास गयी थीलेकिन उन्होंने भी ऐसा ही कहा के डोली उठेगीलेकिन मेरे दिल में एक उम्मीद की किरण हैवोह ये है के मै जितने दीन वह रुकी बादशाह ने मुझे १५ बार बेटी कह कर पुकारा था. और एक बाप अपनी बेटी की इज्ज़त नीलाम नहीं होने देगा.
और डोली सजधज के सेनापति के महल पोह्चीसेनापति ने डोली देख के अपनी अय्याशी की ख़ुशी फकीरों को पैसे लुटाना शुरू किया. जब पैसे लुटा रहा था तब एक कम्बल-पोश फ़क़ीर जिसने अपने चेहरे पे कम्बल ओढ रखी थी.
उसने कहा “मै ऐसा-वैसा फकीर नहीं हुमेरे हाथ में पैसे दे”,
उसने हाथ में पैसे दिए और उन्होंने अपने मुह से कम्बल हटा दी तोह औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह खुद थे.
उन्होंने कहा के तेरा एक पंडित की लड़की की इज्ज़त पे हाथ डालना मुसलमान हुकूमत पे दाग लगा सकता है , और आप हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह ने इंसाफ फ़रमाया.
४ हाथी मंगवा कर सेनापति के दोनों हाथ और पैर बाँध कर अलग अलग दिशा में हाथियों को दौड़ा दिया गया. और सेनापति को चीर दिया गया.
फिर आपने पंडित के घर पर एक चबूतरा था उस चबूतरे के पास दो रकात नमाज़ नफिल शुक्राने की अदा की , और दुआ की के, “ए अल्लाह मै तेरा शुक्रगुजार हुके तूने मुझे एक हिन्दू लड़की की इज्ज़त बचाने के लिएइंसाफ करने के लिए चुना.
फिर हज़रत औरंगजेब आलमगीर रह्मतुल्लाहिअलैह ने कहा “बेटी १ ग्लास पानी लाना !
लड़की पानी लेकर आइतब आपने फ़रमाया के जिस दीन दिल्ली में मैंने तेरी फरियाद सुनी थी उस दीन से मैंने क़सम खायी थी के जब तक तेरे साथ इंसाफ नहीं होगा पानी नहीं पिऊंगा.
तब शकुंतला के बाप पंडित और काशी बनारस के दुसरे हिन्दू भाइयो ने उस चबूतरे के पास एक मस्जिद तामीर की. जिसका नाम “धनेडा की मस्जिद” रखा गया. और पंडितो ने ऐलान किया के ये बादशाह औरंगजेब आलमगिर के इंसाफ की ख़ुशी में हमारी तरफ से और सेनापति को जो सझा दी गई वो इंसाफ एक सोने की तख़्त (Gold Slate) पर लिखा गया था वो आज भी उस मस्जिद में मौजुद हैलेकिन शकुंतला के इंसाफ में दिल्ली से बनारस तक् का वो तारीखी सफ़र जो हज़रत औरंगजेब आलमगिर ने किया था वो आज इतिहास के पन्नो में छुपा दिया गया.. ना जाने क्यों ????? खुदाया खैर करे नाइंसाफी के फ़ितनो से !!!!

 इस्लाम इंसाफ का आईना

जो लोग मुसलमानों को जालिम की नज़र से देखते है वो इस बात पर जरुर गौर करे केइस्लाम तलवार की जोर पर फैला नहीं है और अगर ऐसा होता तो आज हिंदुस्तान में एक भी नॉनमुस्लिम नहीं होताक्यूंकि इस्लामी मुघलो की हुकूमत पुरे हिंदुस्तान में कई बरसो तक कायम रही थी और उनके लिए बिलकुल भी नामुमकिन नहीं था तमाम नोंमुस्लिम के साथ वो हश्र करना जो हिटलर ने यहूदियों के साथ किया.

• याद रखे के हमारे देश हिंदुस्तान में कभी भी धर्म युद्ध था ही नहींजो भी हुआ है वो चंद सियासतदारो की साजिशे थि जिसके जर्ये वो अपना मकसद हासिल करना चाहते थे. और हमारी तुम्हारी आपसी दुश्मनी का बेशुमार फायदा उन्होंने उठा भी लिया”.
• यह भी याद रहे के दंगो में ना मुसलमान मरता है और ना ही हिन्दू मरता है .. दंगो में इंसानियत मर जाती है .. घरो की इज्ज़त-ओ-आबरू लुट जाती है ..
हिन्दू मुसलमान के नाम पर दंगे करवाने वाले न कभी इंसानों में थे और न ही कभी उनकी गिनती इंसानों में की जायेगीउनके हैवानियत का बदला उन्हें दुनिया में भी मिलेगा और आखिरत में भी उनके लिए दर्दनाक अजाब है . सिवाय उन लोगों के जिन्हें अपनी गलतीयों पर शर्मिंदगी महसूस हुई और तौबा कर सच्छे परवरदिगार की फरमाबरदारी में लग गए.
• क्यूंकि इस्लाम हर हाल में अमन चाहता है इसलिए इस्लाम आज दुनिया का सबसे बड़ा मजहब है जो तेजी से फ़ैल रहा है सिर्फ इसलिए क्यूंकि लोग इस धर्म की सच्चाई को जानने की चाहत रखते है.
और यकींन जानो अल्लाह उसे जरुर हिदायत का मौका अता फरमाता है जो नेकी की राह (सीराते मुस्तकीम) पर चलने की नियत (दुआ) भी करता हो.
इसिलिये मेरे भाइयों और बहनों हम लोग दिल ही दिल में उस सच्चे परवरदिगार से दुआ करे के वो हमें सही राह चलाए हराम कामो से हमारी सलामती अता फरमाएऔर तुम्हे हक-परस्त बनाये !!! आमीन 
!! ए अल्लाह पाक हमे हर हाल में इंसाफ के साथ नेकी की राह पर चलने की तौफिक अता फरमा. इंसाफ पर जिंदगी और इंसाफ पर ईमान के साथ शहादत अता फरमानबी-ए-पाक की नायाब सुन्नतो पर अमल की तौफिक अता फरमा !! आमीन ….
अल्लाह तआला हमे पढ़ने-सुनने से ज्यादा अमल की तौफिक दे !!! आमीन

प्रशन व उत्तर
क्या इस्लाम तलवार के ज़ोर से फैला है ?
प्रश्नः यह कैसे संभव है कि इस्लाम को शांति का धर्म माना जाए क्योंकि यह तो तलवार (युद्ध और रक्तपात) के द्वारा फैला है?
उत्तरः अधिकांश ग़ैर मुस्लिमों की एक आम शिकायत है कि यदि इस्लाम ताकष्त के इस्तेमाल से न फैला होता तो इस समय उनके अनुयायियों की संख्या इतनी अधिक (अरबों में) हरगिज़ नहीं होती। आगे दर्ज किये जा रहे तथ्य यह स्पष्ट करेंगे कि इस्लाम के तेज़ी से विश्वव्यापी फैलाव में तलवार की शक्ति नहीं वरन् उसकी सत्यता तथा बुद्धि और विवेकपूर्ण तार्किक प्रमाण इसके मुख्य कारण है।
इस्लाम का अर्थ है शांतिअरबी भाषा में इस्लाम शब्द सलामसे बना है जिसका अर्थ है, सलामती और शांति। इस्लाम का एक अन्य अर्थ है कि अपनी इच्छा और इरादों को ईश्वर (अल्लाह) के आधीन कर दिया जाए। अर्थात इस्लाम शांति का धर्म है और यह शांति (सुख संतोष और सुरक्षा) तभी प्राप्त हो सकती है जब मनुष्य अपने आस्तित्व, इच्छाओं ओर आकांक्षाओं को ईश्वर के आधीन कर दे अर्थात स्वंय को पूरी तरह समर्पित कर दे। कभी-कभार शांति बनाए रखने के लिए बल प्रयोग करना पड़ता है
इस संसार का प्रत्येक व्यक्ति शांति और एकता स्थापित रखने के पक्ष में नहीं है। ऐसे अनेकों लोग हैं जो अपने निहित अथवा प्रत्यक्ष स्वार्थों की पूर्ति के लिए शांति व्यवस्था में व्यावधान उत्पन्न करते रहते हैं, अतः कुछ अवसरों पर बल प्रयोग करना पड़ता है। यही कारण है कि प्रत्येक देश में पुलिस विभाग होता है जो अपराधियों और समाज विरोधी तत्वों के विरुद्ध शक्ति का प्रयोग करता है ताकि देश में शांति व्यवस्था बनी रहे। इस्लाम शांति का सन्देश देता है। इसी के साथ वह हमें यह शिक्षा भी देता है कि अन्याय के विरुद्ध लड़ें। अतः कुछ अवसरों पर अन्याय और अराजकता के विरुद्ध बल प्रयोग आवश्यक हो जाता है। विदित हो कि इस्लाम में शक्ति का प्रयोग केवल और केवल शांति तथा न्याय की स्थापना एवं विकास के लिए ही किया जा सकता है।
इतिहासकार लेसी ओलेरी की राय
इस्लाम तलवार के ज़ोर से फैला, इस सामान्य भ्रांति का सटीक जवाब प्रसिद्ध इतिहासकार लेसी ओलेरी ने अपनी विख्यात पुस्तक ‘‘इस्लाम ऐट दि क्रास रोड’’ पृष्ठ 8) में इस प्रकार दिया है।
‘‘इतिहास से सिद्ध होता है कि लड़ाकू मुसलमानों के समस्त विश्व में फैलने और विजित जातियों को तलवार के ज़ोर पर इस्लाम में प्रविष्ट करने की कपोल-कल्पित कहानी उन मनगढ़ंत दंतकथाओं में से एक है जिन्हें इतिहासकार सदैव से दोहराते आ रहे हैं।’’
मुसलमानों ने स्पेन पर 800 वर्षों तक शासन किया स्पेन पर मुसलमानों का 800 वर्षों तक एकछत्र शासन रहा है परन्तु स्पेन में मुसलमानों ने वहाँ के लोगों का धर्म परिवर्तन अर्थात मुसलमान बनाने के लिए कभी तलवार का उपयोग नही किया। बाद में सलीबी ईसाईयों ने स्पेन पर कष्ब्ज़ा कर लिया और मुसलमानों को वहाँ से निकाल बाहर किया, तब यह स्थिति थी कि स्पेन में किसी एक मुसलमान को भी यह अनुमति नहीं थी कि वह आज़ादी से अज़ान ही दे सकता।
एक करोड़ 40 लाख अरब आज भी कोपटिक ईसाई हैं
मुसलमान विगत् 1400 वर्षों से अरब के शासक रहे हैं। बीच के कुछ वर्ष ऐसे हैं जब वहाँ फ्ऱांसीसी अधिकार रहा परन्तु कुल मिलाकर अरब की धरती पर मुसलमान 14 शताब्दियों से शासन कर रहे हैं। इसके बावजूद वहाँ एक करोड़ 40 लाख कोपटिक क्रिश्चियन हैं, अर्थात वह ईसाई जो पीढ़ी दर पीढ़ी वहाँ रहते चले आ रहे हैं। यदि मुसलमानों ने तलवार इस्तेमाल की होती तो उस क्षेत्र में कोई एक अरबवासी भी ऐसा नहीं होता जो ईसाई रह जाता।
भारत में 80 प्रतिशत से अधिक ग़ैर मुस्लिम हैं
भारत में मुसलमानों ने लगभग 1000 वर्षों तक शासन किया है। यदि वे चाहते, और उनके पास इतनी शक्ति थी कि भारत में बसने वाले प्रत्येक ग़ैर मुस्लिम को (तलवार के ज़ोर पर) इस्लाम स्वीकार करने पर विवश कर सकते थे। आज भारत में 80 प्रतिशत से अधिक ग़ैर मुस्लिम हैं। इतनी बड़ी गै़र मुस्लिम जनसंख्या यह स्पष्ट गवाही दे रही है कि उपमहाद्वीप में इस्लाम तलवार के ज़ोर पर हरगिज़ नहीं फैला।

इंडोनेशिया और मलेशिया
जनसंख्या के आधार पर इंडोनेशिया विश्व का सबसे बड़ा इस्लामी देश है। मलेशिया में भी मुसलमान बहुसंख्यक हैं। यह पूछा जासकता है कि वह कौन सी सेना थी जिसने (सशस्त्र होकर) इंडोनेशिया और मलेशिया पर आक्रमण किया था और वहाँ इस्लाम फैलाने के लिए मुसलमानों की कौन सी युद्ध शक्ति का इसमें हाथ है?

अफ्ऱीक़ा का पूर्वी समुद्र तट
इसी प्रकार अफ्ऱीकी महाद्वीप के पूर्वी समुद्रतट के क्षेत्र के साथ-साथ इस्लाम का तीव्रगति से विस्तार हुआ है। एक बार फिर वही प्रश्न सामाने आता है कि यदि इस्लाम तलवार के ज़ोर से फैला है तो आपत्ति करने वाले इतिहास का तर्क देकर बताएं कि किस देश की मुसलमान सेना उन क्षेत्रों को जीतने और वहाँ के लोगों को मुसलमान बनाने गई थी?
थामस कारलायल
प्रसिद्ध इतिहासकार थामस कारलायल अपनी पुस्तक ‘‘हीरोज़ एण्ड हीरो वर्शिप’’ में इस्लाम फैलने के विषय में भ्रांति का समाधान करते हुए लिखता हैः
‘‘तलवार तो है, परन्तु आप तलवार लेकर वहाँ जाएंगे? प्रत्येक नई राय की शुरूआत अल्पमत में होती है। (आरंभ में) केवल एक व्यक्ति के मस्तिष्क में होती है, यह सोच वहीं से पनपती है। इस विश्व का केवल एक व्यक्ति जो इस बात पर विश्वास रखता है, केवल एक व्यक्ति जो शेष समस्त व्यक्तियों के सामने होता है, फिर (यदि) वह तलवार उठा ले और (अपनी बात) का प्रचार करने का प्रयास करने लगे तो वह थोड़ी सी सफलता ही पा सकेगा। आप के पास अपनी तलवार अवश्य होनी चाहिए परन्तु कुल मिलाकर कोई वस्तु उतना ही फैलेगी जितना वह अपने तौर पर फैल सकती है।’’

दीन (इस्लाम) में कोई ज़बरदस्ती नहीं
इस्लाम किस तलवार द्वारा फैला? यदि मुसलमानों के पास यह तलवार होती और उन्होंने इस्लाम फैलाने के लिये उसका प्रयोग किया भी होता तब भी वे उसका प्रयोग नहीं करते क्योंकि पवित्र क़ुरआन का स्पष्ट आदेश हैः
‘‘दीन के बारे में कोई ज़बरदस्ती नहीं है, सही बात ग़लत बात से छाँटकर रख दी गई है।’’ (पवित्र क़ुरआन, 2:256)

ज्ञान, बुद्धि और तर्क की तलवार
वास्तविकता यह है कि जिस तलवार ने इस्लाम को फैलाया, वह ज्ञान, बुद्धि और तर्क की तलवार है। यही वह तलवार है जो मनुष्य के हृदय और मस्तिष्क को विजित करती है। पवित्र कुरआन के सूरह अन्-नह्लमें अल्लाह का फ़रमान हैः
‘‘हे नबी! अपने रब के रास्ते की तरफ़ दावत दो, ज्ञान और अच्छे उपदेश के साथ लोगों से तर्क-वितर्क करो, ऐसे ढंग से जो बेहतरीन हो। तुम्हारा रब ही अधिक बेहतर जानता है कि कौन राह से भटका हुआ है और कौन सीधे रास्ते पर है।’’ (पवित्र क़ुरआन, 16:125)

इस्लाम 1934 से 1984 के बीच 
विश्व में सर्वाधिक फैलने वाला धर्म रीडर्स डायजेस्ट, विशेषांक 1984 में प्रकाशित एक लेख में विश्व के प्रमुख धर्मों में फैलाव के आंकड़े दिये गये हैं जो 1934 से 1984 तक के 50 वर्षों का ब्योरा देते हैं। इसके पश्चात यह लेख दि प्लेन ट्रुथ’’ नामक पत्रिका में भी प्रकाशित हुआ। इस आकलन में इस्लाम सर्वोपरि था जो 50 वर्षों में 235 प्रतिशत बढ़ा था। जबकि ईसाई धर्म का विस्तार केवल 47 प्रतिशत रहा। क्या यह पूछा जा सकता है कि इस शताब्दी में कौन सा युद्ध हुआ था जिसने करोड़ों लोगों को धर्म परिवर्तन पर बाध्य कर दिया?
इस्लाम यूरोप और अमरीका में सबसे अधिक तेज़ी से फैलने वाला धर्म है इस समय इस्लाम अमरीका में सबसे अधिक तेज़ी से फैलने वाला धर्म है। इसी प्रकार यूरोप में भी तेज़ गति से फैलने वाला धर्म भी इस्लाम ही है। क्या आप बता सकते हैं कि वह कौन सी तलवार है जो पश्चिम के लोगो को इस्लाम स्वीकार करने पर विवश कर रही है।
डा. पीटर्सन का मत डा. जोज़फ़ एडम पीटर्सन ने बिल्कुल ठीक कहा है किः
‘‘जो लोग इस बात से भयभीत हैं कि ऐटमी हथियार एक न एक दिन अरबों के हाथों में चले जाएंगे, वे यह समझ पाने में असमर्थ हैं कि इस्लामी बम तो गिराया जा चुका है, यह बम तो उसी दिन गिरा दिया गया था जिस दिन मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का जन्म हुआ था।’’

मांसाहारी भोजन
प्रश्नः पशुओं को मारना एक क्रूरतापूर्ण कृत्य है तो फिर मुसलमान मांसाहारी भोजन क्यों पसन्द करते हैं?
उत्तरः शाकाहारआज एक अंतराष्ट्रीय आन्दोलन बन चुका है बल्कि अब तो पशु-पक्षियों के अधिकार भी निर्धारित कर दिये गए हैं। नौबत यहां तक पहुंची है कि बहुत से लोग मांस अथवा अन्य प्रकार के सामिष भोजन को भी पशु-पक्षियों के अधिकारों का हनन मानने लगे हैं।
इस्लाम केवल इंसानों पर ही नहीं बल्कि तमाम पशुओं और प्राणधारियों पर दया करने का आदेश देता है परन्तु इसके साथ-साथ इस्लाम यह भी कहता है कि अल्लाह तआला ने यह धरती और इस पर मौजूद सुन्दर पौधे और पशु पक्षी, समस्त वस्तुएं मानवजाति के फ़ायदे के लिए उत्पन्न कीं। यह मनुष्य की ज़िम्मेदारी है कि वह इन समस्त संसाधनों को अल्लाह की नेमत और अमानत समझकर, न्याय के साथ इनका उपयोग करे।
अब हम इस तर्क के विभिन्न पहलुओं पर दृष्टि डालते हैं।

मुसलमान पक्का शाकाहारीबन सकता है
एक मुसलमान पुरी तरह शाकाहारी रहकर भी एक अच्छा मुसलमान बन सकता है। मुसलमानों के लिए यह अनिवार्य नहीं है कि वह सदैव मांसाहारी भोजन ही करें।
पवित्र क़ुरआन मुसलमानों को मांसाहार की अनुमति देता है पवित्र क़ुरआन में मुसलमानों को मांसाहारी भोजन की अनुमति दी गई है। इसका प्रमाण निम्नलिखित आयतों से स्पष्ट हैः
‘‘तुम्हारे लिए मवेशी (शाकाहारी पशु) प्रकार के समस्त जानवर हलाल किये गए हैं।’’ (पवित्र क़ुरआन , 5:1)
‘‘उसने पशु उत्पन्न किये जिनमें तुम्हारे लिए पोशाक भी है और ख़ूराक भी, और तरह तरह के दूसरे फ़ायदे भी।’’ (पवित्र क़ुरआन, 16:5)
‘‘और हकीकत यह है कि तुम्हारे लिये दुधारू पशुओं में भी एक शिक्षा है, उनके पेटों में जो कुछ है उसी में से एक चीज़ (अर्थात दुग्ध) हम तुम्हें पिलाते हैं और तुम्हारे लिए इनमे बहुत से दूसरे फ़ायदे भी हैं, इनको तुम खाते हो और इन पर और नौकाओं पर सवार भी किये जाते हो।’’ (पवित्र क़ुरआन , 23:21)
मांस पौष्टिकता और प्रोटीन से भरपूर होता है
मांसाहारी भोजन प्रोटीन प्राप्त करने का अच्छा साधन है। इसमें भरपूर प्रोटीन होते है। अर्थात आठों जीवन पोषक तत्व। (इम्यूनो एसिड) मौजूद होते हैं। यह आवश्यक तत्व मानव शरीर में नहीं बनते। अतः इनकी पूर्ती बाहरी आहार से करना आवश्यक होता है। इसके अतिरिक्त माँस में लोहा, विटामिन-बी, इत्यादि पोषक तत्व भी पाए जाते हैं।

मानवदंत प्रत्येक प्रकार के भोजन के लिए उपयुक्त हैं
यदि आप शाकाहारी पशुओं जैसे गाय, बकरी अथवा भेड़ आदि के दांतों को देखें तो आश्चर्यजनक समानता मिलेगी। इन सभी पशुओं के दाँत  सीधे अथवा फ़्लैट हैं। अर्थात ऐसे दांत जो वनस्पति आहार चबाने के लिए उपयुक्त हैं। इसी प्रकार यदि आप शेर, तेंदुए अथवा चीते इत्यादि के दांतों का निरीक्षण करें तो आपको उन सभी में भी समानता मिलेगी। मांसाहारी जानवारों के दांत नोकीले होते हैं। जो माँस जैसा आहार चबाने के लिए उपयुक्त हैं। परनतु मनुष्य के दाँतों को ध्यानपुर्वक देखें तो पाएंगे कि उनमें से कुछ दांत सपाट या फ़्लैट हैं परन्तु कुछ नोकदार भी हैं। इसका मतलब है कि मनुष्य के दांत शाकाहारी और मांसाहारी दोनों प्रकार के आहार के लिए उपयुक्त हैं। अर्थात मनुष्य सर्वभक्षी प्राणी है जो वनास्पति और माँस प्रत्येक प्रकार का आहार कर सकता है।
प्रश्न किया जा सकता है कि यदि अल्लाह चाहता कि मनुष्य केवल शाकाहारी रहे तो उसमें हमें अतिरिक्त नोकदार दांत क्यों दिये? इसका तार्किक उत्तर यही है कि अल्लाह ने मनुष्य को सर्वभक्षी प्राणी के रूप में रचा है और वह महान विधाता हमसे अपेक्षा रखता है कि हम शाक सब्ज़ी के अतिरिक्त सामिष आहार (मांस, मछली, अण्डा इत्यादि) से भी अपनी शारीरिक आवश्यकताएं पूरी कर सकें। मनुष्य की पाचन व्यवस्था शाकाहारी और मांसाहारी दोनों प्रकार के भोजन को पचा सकती है शाकाहारी प्राणीयों की पाचन व्यवस्था केवल शाकाहारी भोजन को पचा सकती है। मांसाहारी जानवरों में केवल मांस को ही पचाने की क्षमता होती है। परन्तु मनुष्य हर प्रकार के खाद्य पद्रार्थों को पचा सकता है। यदि अल्लाह चाहता कि मनुष्य एक ही प्रकार के आहार पर जीवत रहे तो हमारे शरीर को दोनों प्रकार के भोजन के योग्य क्यों बनाता कि वह शक सब्ज़ी के साथ-साथ अन्य प्रकार के भोजन को भी पचा सके।

पवित्र हिन्दू धर्मशास्त्रों में भी मांसाहारी भोजन की अनुमति है

(क) बहुत से हिन्दू ऐसे भी हैं जो पूर्ण रूप से शाकाहारी हैं। उनका विचार है कि मास-मच्छी खाना उनके धर्म के विरुद्ध है परन्तु यह वास्तविकता है कि हिन्दुओं के प्राचीन धर्मग्रन्थों में मांसाहार पर कोई प्रतिबन्ध नहीं है। उन्हीं ग्रंथों में ऐसे साधू संतों का उल्लेख है जो मांसाहारी थे।
(ख) मनुस्मृति जो हिन्दू कानून व्यवस्था का संग्रह है, उसके पाँचवे  अध्याय के 30वें श्लोक में लिखा हैः
‘‘खाने वाला जो उनका मांस खाए कि जो खाने के लिए है तो वह कुछ बुरा नहीं करता, चाहे नितदिन वह ऐसा क्यों न करे क्योंकि ईश्वर ने स्वयं ही बनाया है कुछ को ऐसा कि खाए जाएं और कुछ को ऐसा कि खाएं।’’
(ग) मनुस्मृति के पाँचवें अध्याय के अगले श्लोक नॉ 31 में लिखा हैः
‘‘बलि का माँस खाना उचित है, यह एक रीति है जिसे देवताओं का आदेश जाना जाता है ’’
(घ) मनुस्मृति के इसी पाँचवें अध्याय के श्लोक 39-40 में कहा गया हैः
‘‘ईश्वर ने स्वयं ही बनाया है बलि के पशुओं को बलि हेतु। तो बलि के लिये मारना कोई हत्या नहीं है।’’
(ङ) महाभारत, अनुशासन पर्व के 58वें अध्याय के श्लोक 40 में धर्मराज युधिष्ठिर और भीष्म पितामहः के मध्य इस संवाद पर कि यदि कोई व्यक्ति अपने पुरखों के श्राद्ध में उनकी आत्मा की शांति के लिए कोई भोजन अर्पित करना चाहे तो वह क्या कर सकता है। वह वर्णन इस प्रकार हैः
‘‘युधिष्ठिर ने कहाहे महाशक्तिमान, मुझे बताओ कि वह कौन सी वस्तु है जिसे यदि अपने पुरखों की आत्मा की शांति के लिए अर्पित करूं तो वह कभी समाप्त न हो, वह क्या वस्तु है जो (यदि दी जाए तो) सदैव बनी रहे? वह क्या है जो (यदि भेंट की जाए तो) अमर हो जाए?’’
भीष्म ने कहाः ‘‘हे युधिष्ठिर! मेरी बात ध्यानपुर्वक सुनो, वह भेंटें क्या हैं जो कोई श्रद्धापूर्वक अर्पित की जाए जो श्रद्धा हेतु अचित हो और वह क्या फल है जो प्रत्येक के साथ जोड़े जाएं। तिल और चावल, जौ और उड़द और जल एवं कन्दमूल आदि उनकी भेंट किया जाए तो हे राजन! तुम्हारे पुरखों की आत्माएं प्रसन्न होंगी। भेड़ का (मांस) चार मास तक, ख़रगोश के (मांस) की भेंट चार मास तक प्रसन्न रखेगी, बकरी के (मांस) की भेंट छः मास तक और पक्षियों के (मांस) की भेंट सात मास तक प्रसन्न रखेगी। मृग के (मांस) की भेंट दस मास तक, भैंसे के (मांस) का दान ग्यारह मास तक प्रसन्न रखेगा। कहा जाता है कि गोमांस की भेंट एक वर्ष तक शेष रहती है। भेंट के गोमांस में इतना घृत मिलाया जाए जो तुम्हारे पुरखों की आत्माओं को स्वीकार्य हो, धरनासा (बड़ा बैल) का मांस तुम्हारे पुरखों की आत्माओं को बारह वर्षों तक प्रसन्न रखेगा। गेण्डे का मांस, जिसे पुरखों की आत्माओं को चन्द्रमा की उन रातों में भेंट किया जाए जब वे परलोक सिधारे थे तो वह उन्हें सदैव प्रसन्न रखेगा। और एक जड़ी बूटी कलासुका कही जाती है तथा कंचन पुष्प की पत्तियाँ और (लाल) बकरी का मांस भी, जो भेंट किया जाए, वह सदैव-सदैव के लिये है। यदि तुम चाहते हो कि तुम्हारें पितरों की आत्मा सदैव के लिए शांति प्राप्त करे तो तुम्हें चाहिए कि लाल बकरी के मांस से उनकी सेवा करो।’’ (भावार्थ)

हिन्दू धर्म भी अन्य धर्मों से प्रभावित हुआ है
यद्यपि हिन्दू धर्म शास्त्रों में मांसाहारी भोजन की अनुमति नहीं है परन्तु हिन्दुओं के अनुयायियों ने कालांतर में अन्य धर्मों का प्रभाव भी स्वीकार किया और शाकाहार को आत्मसात कर लिया। इन अन्य धर्मों में जैनमत इत्यादि शामिल हैं।
पौधे भी जीवनधारी हैं कुछ धर्मों ने शकाहार पर निर्भर रहना इसलिए भी अपनाया है क्योंकि आहार व्यवस्था में जीवित प्राणधारियों को मारना वार्जित है। यदि कोई व्यक्ति अन्य प्राणियों को मारे बिना जीवित रह सकता है तो वह पहला व्यक्ति होगा जो जीवन बिताने का यह मार्ग स्वीकार कर लेगा। अतीत में लोग यह समझते थे कि वृक्ष-पौधे निष्प्राण होते हैं परन्तु आज यह एक प्रामाणिक तथ्य है कि वृक्ष-पौधे भी जीवधारी होते हैं अतः उन लोगों की यह धारणा कि प्राणियों को मारकर खाना पाप है, आज के युग में निराधार सिद्ध होती है। अब चाहे वे शाकाहारी क्यों न बने रहें।

पौधे भी पीड़ा का आभास कर सकते हैं
पूर्ण शाकाहार में विश्वास रखने वालों की मान्यता है कि पौधे कष्ट और पीड़ा महसूस नहीं कर सकते अतः वनस्पति और पेड़-पौधों को मारना किसी प्राणी को मारने के अपेक्षा बहुत छोटा अपराध है। आज विज्ञान हमें बताता है कि पौधे भी कष्ट और पीड़ा का अनुभव करते हैं किन्तु उनके रुदन और चीत्कार को सुनना मनुष्य के वश में नहीं। इस का कारण यह है कि मनुष्य की श्रवण क्षमता केवल 20 हटर्ज़ से लेकर 20,000 हर्टज फ्ऱीक्वेंसी वाली स्वर लहरियाँ सुन सकती हैं। एक कुत्ता 40,000 हर्टज तक की लहरों को सुन सकता है। यही कारण है कि कुत्तों के लिए विशेष सीटी बनाई जाती है तो उसकी आवाज़ मनुष्यों को सुनाई नहीं देती परन्तु कुत्ते उसकी आवाज़ सुनकर दौड़े आते हैं, उस सीटी की आवाज़ 20,000 हर्टज से अधिक होती है।
एक अमरीकी किसान ने पौधों पर अनुसंधान किया। उसने एक ऐसा यंत्र बनाया जो पौधे की चीख़ को परिवर्तित करके फ्ऱीक्वेंसी की 
परिधि में लाता था कि मनुष्य भी उसे सुन सकें। उसे जल्दी ही पता चल गया कि पौधा कब पानी के लिए रोता है। आधुनिकतम अनुसंधान से सिद्ध होता है कि पेड़-पौधे ख़ुशी और दुख तक को महसूस कर सकते हैं और वे रोते भी हैं।
(अनुवादक के दायित्व को समक्ष रखते हुए यह उल्लेख हिन्दी में भी किया गया है। दरअस्ल पौधे के रोने चीख़ने की बात किसी अनुसंधान की चर्चा किसी अमरीकी अख़बार द्वारा गढ़ी गई है। क्योंकि गम्भीर विज्ञान साहित्य और अनुसंघान सामग्री से पता चला है कि प्रतिकूल परिस्थतियों अथवा पर्यावरण के दबाव की प्रतिक्रिया में पौधों से विशेष प्रकार का रसायनिक द्रव्य निकलता है। वनस्पति वैज्ञानिक इस प्रकार के रसायनिक द्रव्य को ‘‘पौधे का रुदन और चीत्कार बताते हैं) अनुवादक
दो अनुभूतियों वाले प्राणियों की हत्या करना निम्नस्तर का अपराध है |
एक बार एक शाकाहारी ने बहस के दौरान यह तर्क रखा कि पौधों में दो अथवा तीन अनुभूतियाँ होती हैं। जबकि जानवरों की पाँच अनुभूतियाँ होती है। अतः (कम अनुभव क्षमता के कारण) पौधों को मारना जीवित जानवरों को मारने की अपेक्षा छोटा अपराध है। इस जगह यह कहना पड़ता है कि मान लीजिए (ख़ुदा न करे) आपका कोई भाई ऐसा हो जो जन्मजात मूक और बधिर हो अर्थात उसमें अनुभव शक्ति कम हो, वह वयस्क हो जाए और कोई उसकी हत्या कर दे तब क्या आप जज से कहेंगे कि हत्यारा थोड़े दण्ड का अधिकारी है। आपके भाई के हत्यारे ने छोटा अपराध किया है और इसीलिए वह छोटी सज़ा का अधिकारी है? केवल इसलिए कि आपके भाई में जन्मजात दो अनुभूतियाँ कम थीं? इसके बजाए आप यही कहेंगे कि हत्यारे ने एक निर्दोष की हत्या की है अतः उसे कड़ी से कड़ी सज़ा दी जाए।
पवित्र क़ुरआन में फ़रमाया गया हैः
‘‘लोगो! धरती पर जो पवित्र और वैध चीज़ें हैं, उन्हें खाओ और शैतान के बताए हुए रास्तों पर न चलो, वह तुम्हारा खुला दुश्मन है।’’ (पवित्र क़ुरआन , 2ः168)
पशुओं की अधिक संख्या यदि इस संसार का प्रत्येक व्यक्ति शाकाहारी होता तो परिणाम यह होता कि पशुओं की संख्या सीमा से अधिक हो जाती क्योंकि पशुओं में उत्पत्ति और जन्म की प्रक्रिया तेज़ होती है। अल्लाह ने जो समस्त ज्ञान और बुद्धि का स्वामी है इन जीवों की संख्या को उचित नियंत्रण में रखने का मार्ग सुझाया है। इसमें आश्चर्य की कोई बात नहीं कि अल्लाह तआला ने हमें (सब्ज़ियों के साथ साथ) पशुओं का माँस खाने की अनुमति भी दी है।

सभी लोग मांसाहारी नहींअतः माँस का मूल्य भी उचित है
मुझे इस पर कोई आपत्ति नहीं कि कुछ लोग पूर्ण रूप से शाकाहारी हैं परन्तु उन्हें चाहिए कि मांसाहारियों को क्रूर और अत्याचारी कहकर उनकी निन्दा न करें। वास्तव में यदि भारत के सभी लोग मांसाहारी बन जाएं तो वर्तमान मांसाहारियों का भारी नुकष्सान होगा क्योकि ऐसी स्थिति में माँस का मूल्य कषबू से बाहर हो जाएगा।

पशुओं को ज़िब्हा करने का इस्लामी तरीकका निदर्यतापूर्ण है
प्रश्नः मुसलमान पशुओं को ज़िब्ह (हलाल) करते समय निदर्यतापूर्ण ढंग क्यों अपनाते हैं? अर्थात उन्हें यातना देकर धीरे-धीरे मारने का तरीका, इस पर बहुत लोग आपत्ति करते हैं?
उत्तरः निम्नलिखित तथ्यों से सिद्ध होता है कि ज़बीहा का इस्लामी तरीकष न केवल मानवीयता पर आधारित है वरन् यह साइंटीफ़िक रूप से भी श्रेष्ठ है।
जानवर हलाल कने का इस्लामी तरीक़ा
अरबी भाषा का शब्द ‘‘ज़क्कैतुम’’ जो क्रिया के रूप में प्रयोग किया जाता है उससे ही शब्द ‘‘ज़क़ात’’ निकलता है, जिसका अर्थ है ‘‘पवित्र करना।’’
जानवर को इस्लामी ढंग से ज़िब्हा करते समय निम्न शर्तों का पूर्ण ध्यान रखा जाना आवश्यक है।
(क) जानवर को तेज़ धार वाली छुरी से ज़िब्हा किया जाए। ताकि जानवर को ज़िब्हा होते समय कम से कम कष्ट हो।
(ख) ज़बीहा एक विशेष शब्द है जिस से आश्य है कि ग्रीवा और गर्दन की नाड़ियाँ काटी जाएं। इस प्रकार ज़िब्हा करने से जानवर रीढ़ की हड्डी काटे बिना मर जाता है।
(ग) ख़ून को बहा दिया जाए।
जानवर के सिर को धड़ से अलग करने से पूर्व आवश्यक है कि उसका सारा ख़ून पूरी तरह बहा दिया गया हो। इस प्रकार सारा ख़ून निकाल देने का उद्देश्य यह है कि यदि ख़ून शरीर में रह गया तो यह कीटाणुओं के पनपने का माध्यम बनेगा। रीढ़ की हड्डी अभी बिल्कुल नहीं काटी जानी चाहिए क्योंकि उसमें वह धमनियाँ होती हैं जो दिल तक जाती हैं। इस समय यदि वह धमनियाँ कट गईं तो दिल की गति रुक सकती है और इसके कारण ख़ून का बहाव रुक जाएगा। जिससे ख़ून नाड़ियों में जमा रह सकता है।

कीटाणुओं और बैक्टीरिया के लिये ख़ून मुख्य माध्यम है

कीटाणुओं, बैक्टीरिया और विषाक्त तत्वों की उत्पति के लिये ख़ून एक सशक्त माध्यम है। अतः इस्लामी तरीके से ज़िब्हा करने से सारा ख़ून निकाल देना स्वास्थ्य के नियमों के अनुसार है क्योंकि उस ख़ून में कीटाणु और बैक्टीरिया तथा विषाक्त तत्व अधिकतम होते हैं।

मांस अधिक समय तक स्वच्छ और ताज़ा रहता है

इस्लामी तरीकों से हलाल किये गए जानवर का मांस अधिक समय तक स्वच्छ और ताज़ा तथा खाने योग्य रहता है क्योंकि दूसरे तरीकों से काटे गए जानवर के मांस की अपेक्षा उसमें ख़ून की मात्रा बहुत कम होती है।

जानवर को कष्ट नहीं होता

ग्रीवा की नाड़ियाँ तेज़ी से काटने के कारण दिमाग़ को जाने वाली धमनियों तक ख़ून का प्रवाह रुक जाता है, जो पीड़ा का आभास उत्पन्न करती हैं। अतः जानवर को पीड़ा का आभास नहीं होता। याद रखिए कि हलाल किये जाते समय मरता हुआ कोई जानवर झटके नहीं लेता बल्कि उसमें तड़पने, फड़कने और थरथराने की स्थिति इसलिए होती है कि उसके पुट्ठों में ख़ून की कमी हो चुकी होती है और उनमें तनाव बहुत अधिक बढ़ता या घटता है।

मांसाहारी भोजन मुसलमानों को हिंसक बनाता है

प्रश्नः विज्ञान हमें बताता है कि मनुष्य जो कुछ खाता है उसका प्रभाव उसकी प्रवृत्ति पर अवश्य पड़ता है, तो फिर इस्लाम अपने अनुयायियों को सामित आहार की अनुमति क्यों देता है? यद्यपि पशुओं का मांस खाने के कारण मनुष्य हिंसक और क्रूर बन सकता है?
उत्तरः केवल वनस्पति खाने वाले पशुओं को खाने की अनुमति है। मैं इस बात से सहमत हूँ कि मनुष्य जो कुछ खाता है उसका प्रभाव उसकी प्रवृत्ति पर अवश्य पड़ता है। यही कारण है कि इस्लाम में मांसाहारी पशुओं, जैसे शेर, चीता, तेंदुआ आदि का मांस खाना वार्जित है क्योंकि ये दानव हिंसक भी हैं। सम्भव है इन दरिन्दों का मांस हमें भी दानव बना देता। यही कारण है कि इस्लाम में केवल वनस्पति का आहार करने वाले पशुओं का मांस खाने की अनुमति दी गई हैं। जैसे गाय, भेड़, बकरी इत्यादि। यह वे पशु हैं जो शांति प्रिय और आज्ञाकारी प्रवृत्ति के हैं। मुसलमान शांति प्रिय और आज्ञाकारी पशुओं का मांस ही खाते हैं। अतः वे भी शांति प्रिय और अहिंसक होते हैं।
पवित्र क़ुरआन का फ़रमान है कि रसूल अल्लाह (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) बुरी चीज़ों से रोकते हैं। पवित्र क़ुरआन में फ़रमान हैः
‘‘वह उन्हें नेकी का हुक्म देता है, बदी से रोकता है, उनके लिए पाक चीज़ें हलाल और नापाक चीज़ें हराम करता है, उन पर से वह बोझ उतारता है जो उन पर लदे हुए थे। वह बंधन खोलता है जिनमें वे जकड़े हुए थे।’’ (पवित्र क़ुरआन)
एक अन्य आयत में कहा गया हैः
‘‘जो कुछ रसूल तुम्हें दे तो वह ले लो और जिस चीज़ें से तुम्हें रोक दे उसमें रुक जाओ, अल्लाह से डरो, अल्लाह सख़्त अज़ाब (कठोरतम दण्ड) देने वाला है।’’ (पवित्र क़ुरआन)

मुसलमानों के लिए महान पैग़म्बर का यह निर्देश ही उन्हे कायल करने के लिए काफ़ी है कि अल्लाह तआला नहीं चाहता कि वह कुछ जानवरों का मांस खाएं जबकि कुछ का खा लिया करें।
इस्लाम की सम्पूर्ण शिक्षा पवित्र क़ुरआन और उसके बाद हदीस पर आधारित है। हदीस का आश्य है मुसलमानों के महान पैग़म्बर हज़रत मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) का कथन जो सही बुख़ारी’, ‘मुस्लिम’, सुनन इब्ने माजह’, इत्यादि पुस्तकों में संग्रहीत हैं। और मुसलमानों का उन पर पूर्ण विश्वास है। प्रत्येक हदीस को उन महापुरूषों के संदर्भ से बयान कया गया है जिन्होंने स्वंय महान पैग़म्बर से वह बातें सुनी थीं।

पवित्र हदीसों में मांसाहारी जानवर का मांस खाने से रोका गया है
सही बुख़ारी, मुस्लिम शरीफ़ में मौजूद, अनेक प्रमाणिक हदीसों के अनुसार मांसाहारी पशु का मांस खाना वर्जित है। एक हदीस के अनुसार, जिसमें हज़रत इब्ने अब्बास (रज़ियल्लाहु अन्हु) के संदर्भ से बताया गया है कि हमारे पैग़म्बर (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) ने (हदीस नॉ 4752), और सुनन इब्ने माजह के तेरहवें अध्याय (हदीस नॉ 3232 से 3234 तक) के अनुसार निम्नलिखित जानवरों का मांस खाने से मना किया हैः
1. वह पशु जिनके दांत नोकीले हों, अर्थात मांसाहारी जानवर, ये जानवर बिल्ली के परिवार से सम्बन्ध रखते हैं। जिसमें शेर, बबर शेर, चीता, बिल्लियाँ, कुत्ते, भेड़िये, गीदड़, लोमड़ी, लकड़बग्घे इत्यादि शामिल हैं।

2. कुतर कर खाने वाले जानवर जैसे छोटे चूहे, बड़े चूहे, पंजों वाले ख़रगोश इत्यादि।

3. रेंगने वाले कुछ जानवर जैसे साँप और मगरमच्छ इत्यादि।

4. शिकारी पक्षी, जिनके पंजे लम्बे और नोकदार नाख़ून हों (जैसे आम तौर से शिकारी पक्षियों के
होते हैं) इनमें गरूड़, गिद्ध, कौए और उल्लू इत्यादि शामिल हैं।

ऐसा कोई वैज्ञानिक साक्ष्य नहीं है जो किसी सन्देह और संशय से ऊपर उठकर यह सिद्ध कर सके कि मांसाहारी अपने आहार के कारण हिसंक भी बन सकता है।

मुसलमान औरतों के लिये हिजाब (पर्दा)

प्रश्नः ‘‘इस्लाम औरतों को पर्दे में रखकर उनका अपमान क्यों करता है?
उत्तरः विधर्मी मीडिया विशेष रूप से इस्लाम में स्त्रियां को लेकर समय समय पर आपत्ति और आलोचना करता रहता है। हिजाब अथवा मुसलमान स्त्रियों के वस्त्रों (बुर्का) इत्यादि को अधिकांश ग़ैर मुस्लिम इस्लामी कानून के तहत महिलाओं का अधिकार हननठहराते हैं। इससे पहले कि हम इस्लाम में स्त्रियों के पर्दे पर चर्चा करें, यह अच्छा होगा कि इस्लाम के उदय से पूर्व अन्य संस्कृतियों में नारी जाति की स्थिति और स्थान पर एक नज़र डाल ली जाए।
अतीत में स्त्रियों को केवल शारीरिक वासनापूर्ति का साधन समझा जाता था और उनका अपमान किया जाता था। निम्नलिखित उदाहरणों से यह तथ्य उजागर होता है कि इस्लाम के आगमन से पूर्व की संस्कृतियों और समाजों में स्त्रियों का स्थान अत्यंत नीचा था और उन्हें समस्त मानवीय अधिकारों से वंचित रखा गया था।

बाबुल (बेबिलोन) संस्कृति में

प्राचीन बेबिलोन संस्कृति में नारीजाति को बुरी तरह अपमानित किया गया था। उन्हें समस्त मानवीय अधिकारों से वंचित रखा गया था। मिसाल के तौर पर यदि कोई पुरुष किसी की हत्या कर देता था तो मृत्यु दण्ड उसकी पत्नी को मिलता था।

यूनानी (ग्रीक) संस्कृति में

प्राचीन काल में यूनानी संस्कृति को सबसे महान और श्रेष्ठ माना जाता है। इसी ‘‘श्रेष्ठ’’ सांस्कृतिक व्यवस्था में स्त्रियों को किसी प्रकार का अधिकार प्राप्त नहीं था। प्राचीन यूनानी समाज में स्त्रियों को हेय दृष्टि से देखा जाता था। यूनानी पौराणिक साहित्य में ‘‘पिंडौरा’’ नामक एक काल्पनिक महिला का उल्लेख मिलता है जो इस संसार में मानवजाति की समस्त समस्याओं और परेशानियों का प्रमुख कारण थी, यूनानियों के अनुसार नारी जाति मनुष्यता से नीचे की प्राणी थी और उसका स्थान पुरूषों की अपेक्षा तुच्छतम था, यद्यपि यूनानी संस्कृति में स्त्रियों के शील और लाज का बहुत महत्व था तथा उनका सम्मान भी किया जाता था, परन्तु बाद के युग में यूनानियों ने पुरूषों के अहंकार और वासना द्वारा अपने समाज में स्त्रियों की जो दुर्दशा की वह यूनानी संस्कृति के इतिहास में देखी जा सकती है। पूरे यूनानी समाज में देह व्यापार समान्य बात होकर रह गई थी।

रोमन संस्कृति में

जब रोमन संस्कृति अपने चरमोत्कर्ष पर थी तो वहाँ पुरूषों को यहाँ तक स्वतंत्रता प्राप्त थी कि पत्नियों की हत्या तक करने का अधिकार था। देह व्यापार और व्यभिचार पर कोई प्रतिबन्ध नहीं था।

प्राचीन मिस्री संस्कृति में

मिस्र की प्राचीन संस्कृति को विश्व की आदिम संस्कृतियों में सबसे उन्नत संस्कृति माना जाता है। वहाँ स्त्रियों को शैतान का प्रतीक माना जाता था।
इस्लाम से पूर्व अरब में

अरब में इस्लाम के प्रकाशोदय से पूर्व स्त्रियों को अत्यंत हेय और तिरस्कृत समझा जाता था। आम तौर पर अरब समाज में यह कुप्रथा प्रचलित थी कि यदि किसी के घर कन्या का जन्म होता तो उसे जीवित दफ़न कर दिया जाता था। इस्लाम के आगमन से पूर्व अरब संस्कृति अनेकों प्रकार की बुराइयों से बुरी तरह दूषित हो चुकी थी।

इस्लाम की रौशनी

इस्लाम ने नारी जाती को समाज में ऊँचा स्थान दिया, इस्लाम ने स्त्रियों को पुरूषों के समान अधिकार प्रदान किये और मुसलमानों को उनकी रक्षा करने का निर्देश दिया है। इस्लाम ने आज से 1400 वर्ष पूर्व स्त्रियों को उनके उचित अधिकारों के निर्धारण का क्रांतिकारी कष्दम उठाया जो विश्व के सांकृतिक और समाजिक इतिहास की सर्वप्रथम घटना है। इस्लाम ने जो श्रेष्ठ स्थान स्त्रियों को दिया है उसके लिये मुसलमान स्त्रियों से अपेक्षा भी करता है कि वे इन अधिकारों की सुरक्षा भी करेंगी।

पुरूषों के लिए हिजाब (पर्दा)

आम तौर से लोग स्त्रियों के हिजाब की बात करते हैं परन्तु पवित्र क़ुरआन में स्त्रियों के हिजाब से पहले पुरूषों के लिये हिजाब की चर्चा की गई है। (हिजाब शब्द का अर्थ है शर्म, लज्जा, आड़, पर्दा, इसका अभिप्राय केवल स्त्रियों के चेहरे अथवा शरीर ढांकने वाले वस्त्र, चादर अथवा बुरका इत्यादि से ही नहीं है।)
पवित्र क़ुरआन की सूरह अन्-नूरमें पुरूषों के हिजाब की इस प्रकार चर्चा की गई हैः
‘‘ए नबी! ईमान रखने वालों (मुसलमानों) से कहो कि अपनी नज़रें बचाकर रखें और अपनी शर्मगाहों की रक्षा करें। यह उनके लिए ज़्यादा पाकीज़ा तरीका है, जो कुछ वे करते हैं अल्लाह उससे बाख़बर रहता है।’’ (पवित्र क़ुरआन, 24:30)
इस्लामी शिक्षा में प्रत्येक मुसलमान को निर्देश दिया गया है कि जब कोई पुरूष किसी स्त्री को देख ले तो संभवतः उसके मन में किसी प्रकार का बुरा विचार आ जाए अतः उसे चाहिए कि वह तुरन्त नज़रें नीची कर ले।

स्त्रियों के लिए हिजाब

पवित्र क़ुरआन में सूरह अन्-नूरमें आदेश दिया गया हैः

‘‘ए नबी! मोमिन औरतों से कह दो, अपनी नज़रें बचा कर रखें और अपनी शर्मगाहों की सुरक्षा करें, और अपना बनाव-श्रंगार न दिखाएं, सिवाय इसके कि वह स्वतः प्रकट हो जाए और अपने वक्ष पर अपनी ओढ़नियों के आँचल डाले रहें, वे अपना बनाव-श्रंगार न दिखांए, परन्तु उन लोगों के सामने पति, पिता, पतियों के पिता, पुत्र’’ (पवित्र क़ुरआन, 24:31)

हिजाब की 6 कसौटियाँ

पवित्र क़ुरआन के अनुसार हिजाब के लिए 6 बुनियादी कसौटियाँ अथवा शर्तें लागू की गई हैं।

1. सीमाएँ (Extent):प्रथम कसोटी तो यह है कि शरीर का कितना भाग (अनिवार्य) ढका होना चाहिए। पुरूषों और स्त्रियों के लिये यह स्थिति भिन्न है। पुरूषों के लिए अनिवार्य है कि वे नाभी से लेकर घुटनों तक अपना शरीर ढांक कर रखें जबकि स्त्रियों के लिए चेहरे के सिवाए समस्त शरीर को और हाथों को कलाईयों तक ढांकने का आदेश है। यदि वे चाहें तो चेहरा और हाथ भी ढांक सकती हैं। कुछ उलेमा का कहना है कि हाथ और चेहरा शरीर का वह अंग है जिनको ढांकना स्त्रियों के लिये अनिवार्य है अर्थात स्त्रियों के हिजाब का हिस्सा है और यही कथन उत्तम है। शेष पाँचों शर्तें स्त्रियों और पुरूषों के लिए समान हैं।

2. धारण किए गये वस्त्र ढीले-ढाले हों, जिससे अंग प्रदर्शन न हो (मतलब यह कि कपड़े तंग, कसे हुए अथवा ‘‘फ़िटिंग’’ वाले न हों।

3. पहने हुए वस्त्र पारदर्शी न हों जिनके आर पार दिखाई देता हो।

4. पहने गए वस्त्र इतने शोख़, चटक और भड़कदार न हों जो स्त्रियों को पुरूषों और
 पुरूषों को स्त्रियों की ओर आकर्षित करते हों।

5. पहने गए वस्त्रों का स्त्रियों और पुरूषों से भिन्न प्रकार का होना अनिवार्य है अर्थात यदि पुरूष ने वस्त्र धारण किये हैं तो वे पुरूषों के समान ही हों, स्त्रियों के वस्त्र स्त्रियों जैसे ही हों और उन पर पुरूषों के वस्त्रों का प्रभाव न दिखाई दे। (जैसे आजकल पश्चिम की नकल में स्त्रियाँ पैंट-टीशर्ट इत्यादि धारण करती हैं। इस्लाम में इसकी सख़्त मनाही है, और मुसलमान स्त्रियों के लिए इस प्रकार के वस्त्र पहनना हराम है।

6. पहने गए वस्त्र ऐसे हों कि जिनमें काफ़िरोंकी समानता न हो। अर्थात ऐसे कपड़े न पहने जाएं जिनसे (काफ़िरों के किसी समूह) की कोई विशेष पहचान सम्बद्ध हो। अथवा कपड़ों पर कुछ ऐसे प्रतीक चिन्ह बने हों जो काफ़िरों के धर्मों को चिन्हित करते हों।

हिजाब में पर्दें के अतिरिक्त कर्म और आचरण भी शामिल है

लिबास में उपरौक्त 6 शर्तों के अतिरिक्त सम्पूर्ण हिजाबमें पूरी नैतिकता, आचरण, रवैया और हिजाब करने वाले की नियत भी शामिल है। यदि कोई व्यक्ति केवल शर्तों के अनुसार वस्त्र धारण करता हे तो वह हिजाब के आदेश पर सीमित रूप से ही अमल कर रहा होगा। लिबास के हिजाब के साथ आँखों का हिजाब, दिल का हिजाब, नियत और अमल का हिजाब भी आवश्यक है। इस (हिजाब) में किसी व्यक्ति का चलना, बोलना और आचरण तथा व्यवहार सभी कुछ शामिल है।

हिजाब स्त्रियों को छेड़छाड़ से बचाता है

स्त्रियों के लिये हिजाब क्यों अनिवार्य किया गया है? इसका एक कारण पवित्र क़ुरआन के सूरह ‘‘अहज़ाब’’ में इस प्रकार बताया गया हैः

‘‘ए नबी! अपनी पत्नियों और बेटियों और ईमान रखने वाले (मुसलमानों) की स्त्रियों से कह दो कि अपनी चादरों के पल्लू लटका लिया करें, यह मुनासिब तरीका है ताकि वे पहचान ली जाएं, और न सताई जाएं। अल्लाह ग़फूर व रहीम (क्षमा करने वाला और दयावान) है। (पवित्र क़ुरआन , 33:59)

पवित्र क़ुरआन की इस आयत से यह स्पष्ट है कि स्त्रियों के लिये पर्दा इस कारण अनि‍वार्य किया गया ताकि वे सम्मानित ढंग से पहचान ली जाएं और छेड़छाड़ से भी सुरक्षित रह सकें।

जुड़वाँ बहनों की मिसाल

‘‘मान लीजिए कि दो जुड़वाँ बहनें हैं, जो समान रूप से सुन्दर भी हैं। उनमें एक ने पूर्णरूप से इस्लामी हिजाब किया हुआ है, उसका सारा शरीर (चादर अथवा बुरके से) ढका हुआ है। दूसरी जुड़वाँ बहन ने पश्चिमी वस्त्र धारण किये हुए हैं, अर्थात मिनी स्कर्ट अथवा शाटर्स इत्यादि जो पश्चिम में प्रचलित सामान्य परिधान है। अब मान लीजिए कि गली के नुक्कड़ पर कोई आवारा, लुच्चा लफ़ंगा या बदमाश बैठा है, जो आते जाते लड़कियों को छेड़ता है, ख़ास तौर पर युवा लड़कियों को। अब आप बताईए कि वह पहले किसे तंग करेगा? इस्लामी हिजाब वाली लड़की को या पश्चिमी वस्त्रों वाली लड़की को?’’
ज़ाहिर सी बात है कि उसका पहला लक्ष्य वही लड़की होगी जो पश्चिमी फै़शन के कपड़ों में घर से निकली है। इस प्रकार के आधुनिक वस्त्र पुरूषों के लिए प्रत्यक्ष निमंत्रण होते हैं। अतः यह सिद्ध हुआ कि पवित्र कुरआन ने बिल्कुल सही फ़रमाया है कि ‘‘हिजाब लड़कियों को छेड़छाड़ इत्यादि से बचाता है।’’

दुष्कर्म का दण्ड, मृत्यु

इस्लामी शरीअत के अनुसार यदि किसी व्यक्ति पर किसी विवाहित स्त्री के साथ दुष्कर्म (शारीरिक सम्बन्ध) का अपराध सिद्ध हो जाए तो उसके लिए मृत्युदण्ड का प्रावधान है। बहुतों को इस ‘‘क्रूर दण्ड व्यवस्था’’ पर आश्चर्य है। कुछ लोग तो यहाँ तक कह देते हैं कि इस्लाम एक निर्दयी और क्रूर धर्म है, नऊजुबिल्लाह (ईश्वर अपनी शरण में रखे) मैंने सैंकड़ो ग़ैर मुस्लिम पुरूषों से यह सादा सा प्रश्न किया कि ‘‘मान लें कि ईश्वर न करे, आपकी अपनी बहन, बेटी या माँ के साथ कोई दुष्कर्म करता है और उसे उसके अपराध का दण्ड देने के लिए आपके सामने लाया जाता है तो आप क्या करेंगे?’’ उन सभी का यह उत्तर था कि ‘‘हम उसे मार डालेंगे।’’ कुछ ने तो यहाँ तक कहा, ‘‘हम उसे यातनाएं देते रहेंगे, यहाँ तक कि वह मर जाए।’’ तब मैंने उनसे पूछा, ‘‘यदि कोई व्यक्ति आपकी माँ, बहन, बेटी की इज़्ज़त लूट ले तो आप उसकी हत्या करने को तैयार हैं, परन्तु यही दुर्घटना किसी अन्य की माँ, बहन, बेटी के साथ घटी हो तो उसके लिए मृत्युदण्ड प्रस्तावित करना क्रूरता और निर्दयता कैसे हो सकती है? यह दोहरा मानदण्ड क्यों है?’’

स्त्रियों का स्तर ऊँचा करने का पश्चिमी दावा निराधार है

नारी जाति की स्वतंत्रता के विषय में पश्चिमी जगत की दावेदारी एक ऐसा आडंबर है जो स्त्री के शारीरिक उपभोग, आत्मा का हनन तथा स्त्री को प्रतिष्ठा और सम्मान से वंचित करने के लिए रचा गया है। पश्चिमी समाज का दावा है कि उसने स्त्री को प्रतिष्ठा प्रदान की है, वास्तविकता इसके विपरीत है। वहाँ स्त्री को ‘‘आज़ादी’’ के नाम पर बुरी तरह अपमानित किया गया है। उसे ‘‘मिस्ट्रेस’’ (हर प्रकार की सेवा करने वाली दासी) तथा ‘‘सोसाइटी बटरफ़्लाई’’ बनाकर वासना के पुजारियों तथा देह व्यापारियों का खिलौना बना दिया गया है। यही वे लोग हैं जो ‘‘आर्ट’’ और ‘‘कल्चर’’ के पर्दों में छिपकर अपना करोबार चमका रहे हैं।

अमरीका मे बलात्कार की दर सर्वाधिक है

संयुक्त राज्य अमरीका (U.S.A.)को विश्व का सबसे अधिक प्रगतिशील देश समझा जाता है। परन्तु यही वह महान देश है जहाँ बलात्कार की घटनाएं पूरे संसार की अपेक्षा सबसे अधिक होती हैं। एफ़.बी.आई की रिपोर्ट के अनुसार 1990 ई. में केवल अमरीका में प्रति दिन औसतन 1756 बलात्कार की घटनाएं हुईं। उसके बाद की रिपोर्टस में (वर्ष नहीं लिखा) प्रतिदिन 1900 बलात्कार काण्ड दर्ज हुए। संभवतः यह आंकड़े 1992, 1993 ई. के हों और यह भी संभव है कि इसके बाद अमरीकी पुरूष बलात्कार के बारे में और ज़्यादा ‘‘बहादुर’’ हो गए हों।
‘‘वास्तव में अमरीकी समाज में देह व्यापार को क़ानूनी दर्जा हासिल है। वहाँ की वेश्याएं सरकार को विधिवत् टेक्स देती हैं। अमरीकी कानून में बलात्कारऐसे अपराध को कहा जाता है जिसमें शारीरिक सम्बन्ध में एक पक्ष (स्त्री अथवा पुरूष) की सहमति न हो। यही कारण है कि अमरीका में अविवाहित जोड़ों की संख्या लाखों में है जबकि स्वेच्छा से व्याभिचार अपराध नहीं माना जाता। अर्थात इस प्रकार के स्वेच्छाचार और व्यभिचार को भी बलात् दुष्कर्म की श्रेणी में लाया जाए तो केवल अमरीका में ही लाखों स्त्री-पुरूष ‘‘ज़िना’’ जैसे महापाप में संलग्न हैं।’’ (अनुवादक)
ज़रा कल्पना कीजिए कि अमरीका में इस्लामी हिजाब की पाबन्दी की जाती है जिसके अनुसार यदि किसी पुरूष की दृष्टि किसी परस्त्री पर पड़ जाए तो वह तुरंत आँखें झुका ले। प्रत्येक स्त्री पूरी तरह से इस्लामी हिजाब करके घर से निकले। फिर यह भी हो कि यदि कोई पुरूष बलात्कार का दोषी पाया जाए तो उसे मृत्युदण्ड दिया जाए, मैं आपसे पूछता हूँ कि ऐसे हालात में अमरीका में बलात्कार की दर बढ़ेगी, सामान्य रहेगी अथवा घटेगी?

इस्लीमी शरीअत के लागू होने से बलात्कार घटेंगे

यह स्वाभाविक सी बात है कि जब इस्लामी शरीअत का कानून लागू होगा तो उसके सकारात्मक परिणाम भी शीध्र ही सामने आने लगेंगे। यदि इस्लामी कानून विश्व के किसी भाग में भी लागू हो जाए, चाहे अमरीका हो, अथवा यूरोप, मानव समाज को राहत की साँस मिलेगी। हिजाब स्त्री के सम्मान और प्रतिष्ठा को कम नहीं करता वरन् इससे तो स्त्री का सम्मान बढ़ता है। पर्दा महिलाओं की इज़्ज़त और नारित्व की सुरक्षा करता है।

‘‘हमारे देश भारत में प्रगति और ज्ञान के विकास के नाम पर समाज में फै़शन, नग्नता और स्वेच्छाचार बढ़ा है, पश्चिमी संस्कृति का प्रसार टी.वी और सिनेमा आदि के प्रभाव से जितनी नग्नता और स्वच्छन्दता बढ़ी है उससे न केवल हिन्दू समाज का संभ्रांत वर्ग बल्कि मुसलमानों का भी एक पढ़ा लिखा ख़ुशहाल तब्क़ा बुरी तरह प्रभावित हुआ है। आज़ादी और प्रगतिशीलता के नाम पर परंपरागत भारतीय समाज की मान्यताएं अस्त-व्यस्त हो रही हैं, अन्य अपराधों के अतिरिक्त बलात्कार की घटनाओं में तेज़ी से वृद्धि हो रही है। चूंकि हमारे देश का दण्डविघान पश्चिमी संस्कृति से प्रभावित है अतः इसमें भी स्त्री-पुरूष को स्चेच्छा और आपसी सहमति से दुष्कर्म करने को दण्डनीय अपराध नहीं माना जाता, भारतीय कानून में बलात्कार जैसे जघन्य अपराध की सज़ा भी कुछ वर्षों की कैद से अधिक नहीं है तथा न्याय प्रक्रिया इतनी विचित्र और जटिल है कि बहुत कम अपराधियों को दण्ड मिल पाता है। इस प्रकार के अमानवीय अपराधों को मानव समाज से केवल इस्लामी कानून द्वारा ही रोका जा सकता है। इस संदर्भ में इस्लाम और मुसलमानों के कट्टर विरोधी भाजपा नेता श्री लाल कृष्ण आडवानी ने बलात्कार के अपराधियों को मृत्यु दण्ड देने का सुझाव जिस प्रकार दिया है उस से यही सन्देश मिलता है कि इस्लामी कानून क्रूरता और निर्दयता पर नहीं बल्कि स्वाभाविक न्याय पर आधारित है। यही नहीं केवल इस्लामी शरीअत के उसूल ही प्रगति के नाम पर विनाश के गर्त में गिरती जा रही मानवता को तबाह होने से बचा सकते हैं।’’
मुसलमान काबा की पूजा करते हैं।

प्रश्नः यद्यपि इस्लाम में मूर्ति पूजा वर्जित है परन्तु मुसलमान काबे की पूजा क्यों करते हैं? और अपनी नमाज़ों के दौरान उसके सामने क्यों झुकते हैं?
उत्तरः काबा हमारे लिये क़िबला (श्रद्धेय स्थान, दिशा) है, अर्थात वह दिशा जिसकी ओर मुँह करके मुसलमान नमाज़ पढ़ते हैं। यह बात ध्यान देने योग्य है कि, मुसलमान नमाज़ के समय काबे की पूजा नहीं करते, मुसलमान केवल अल्लाह की इबादत करते हैं और उसी के आगे झुकते हैं। जैसा कि पवित्र क़ुरआन की सूरह अल-बकष्रः में अल्लाह का फ़रमान हैः
ए नबी! यह तुम्हारे मुँह का बार-बार आसमान की तरफ़ उठना हम देख रहे है, लो हम उसी किष्बले की तरफ़ तुम्हें फेर देते हैं जिसे तुम पसन्द करते हो। मस्जिदुल हराम (काबा) की तरफ़ रुख़ फेर दो, अब तुम जहाँ कहीं हो उसी तरफ़ मुँह करके नमाज़ पढ़ा करो।’’ (पवित्र क़ुरआन , 2ः144)

इस्लाम एकता और सौहार्द के विकास में विश्वास रखता है

जैसे, यदि मुसलमान नमाज़ पढ़ना चाहें तो बहुत सम्भव है कि कुछ लोग उत्तर की दिशा की ओर मुँह करना चाहें, कुछ दक्षिण की ओर, तो कुछ पूर्व अथवा पश्चिम की ओर, अतः एक सच्चे ईश्वर (अल्लाह) की उपासना के अवसर पर मुसलमानों में एकता और सर्वसम्मति के लिए उन्हें यह आदेश दिया गया कि वह विश्व मे जहाँ कहीं भी हों, जब अल्लाह की उपासना (नमाज़) करें तो एक ही दिशा में रुख़ करना होगा। यदि मुसलमान काबा की पूर्व दिशा की ओर रहते हैं तो पश्चिम की ओर रुख़ करना होगा। अर्थात जिस देश से काबा जिस दिशा में हो उस देश से मुसलमान काबा की ओर ही मुँह करके नमाज़ अदा करें।

पवित्र काबा धरती के नक़्शे का केंद्र है

विश्व का पहला नक़्शा मुसलमानों ने ही तैयार किया था। मुसलमानों द्वारा बनाए गए नक़शे में दक्षिण ऊपर की ओर और उत्तर नीचे होता था। काबा उसके केंद्र में था। बाद में भूगोल शास्त्रियों ने जब नक़शे बनाए तो उसमें परिवर्तन करके उत्तर को ऊपर तथा दक्षिण को नीचे कर दिया। परन्तु अलहम्दो लिल्लाह (समस्त प्रशंसा केवल अल्लाह के लिए है) तब भी काबा विश्व के केंद्र में ही रहा।

काबा शरीफ़ का तवाफ़ (परिक्रमा)
अल्लाह के एकेश्वरत्व का प्रदर्शन है

जब मुसलमान मक्का की मस्जिदे हराम में जाते हैं, वे काबा का तवाफ़ करते हैं अथवा उसके गिर्द चक्कर लगाकर परिक्रमा करते हैं तो उनका यह कृत्य एक मात्र अल्लह पर विश्वास और उसी की उपासना का प्रतीक है क्योंकि जिस प्रकार किसी वृत्त (दायरे) का केंद्र बिन्दु एक ही होता है उसी प्रकार अल्लाह भी एकमात्र है जो उपासना के योग्य है।

हज़रत उमर (रज़ियल्लाहु अन्हु) की हदीस सही बुख़ारी, खण्ड 2, किताब हज्ज, अध्याय 56 में वर्णित हदीस नॉ 675 के अनुसार हज़रत उमर (रज़ियल्लाह अन्हु) ने काबा में रखे हुए काले रंग के पत्थर (पवित्र हज्र-ए- अस्वद) को सम्बोधित करते हुए फ़रमायाः
‘‘मैं जानता हूँ कि तू एक पत्थर है जो किसी को हानि अथवा लाभ नहीं पहुंचा सकता। यदि मैंने हुजूर (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) को चूमते हुए नहीं देखा होता तो मैं भी तुझे न छूता (और न ही चूमता)।’’

(इस हदीस से यह पूरी तरह स्पष्ट हो जाता है कि विधर्मियों की धारणा और उनके द्वारा फैलाई गई यह भ्रांति पूर्णतया निराधार है कि मुसलमान काबा अथवा हज्र-ए-अस्वद की पूजा करते हैं। किसी वस्तु को आदर और सम्मान की दृष्टि से देखना उसकी पूजा करना नहीं हो सकता।)
लोगों ने काबे की छत पर खड़े होकर अज़ान दी

महान पैग़म्बर हज़रत मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) के समय में लोग काबे के ऊपर चढ़कर अज़ान भी दिया करते थे, अब ज़रा उनसे पूछिए जो मुसलमानों पर काबे की पूजा का आरोप लगाते हैं कि क्या कोई मूर्ति पूजक कभी अपने देवता की पूजी जाने वाली मूर्ति के ऊपर खड़ा होता है?

मक्का मे ग़ैर मुस्लिमों को प्रवेश की अनुमति नहीं

प्रश्नः मक्का और मदीना के पवित्र नगरों में ग़ैर मुस्लिमों को प्रवेश की अनुमति क्यों नहीं है?
उत्तरः यह सच है कि कानूनी तौर पर मक्का और मदीना शरीफ़ के पवित्र नगरों में ग़ैर मुस्लिमों को प्रवेश करने की अनुमति नहीं है। निम्नलिखित तथ्यों द्वारा प्रतिबन्ध के पीछे कारणों और औचित्य का स्पष्टीकरण किया गया है।
समस्त नागरिकों को कन्टोन्मेंट एरिया (सैनिक छावनी) में जाने की अनुमति नहीं होती मैं भारत का नागरिक हूँ। परन्तु फिर भी मुझे (अपने ही देश के) कुछ वर्जित क्षेत्रों में जाने की अनुमति नहीं है। प्रत्येक देश में कुछ न कुछ ऐसे क्षेत्र अवश्य होते हैं जहाँ सामान्य जनता को जाने की इजाज़त नहीं होती। जैसे सैनिक छावनी या कन्टोन्मेंट एरिया में केवल वही लोग जा सकते हैं जो सेना अथवा प्रतिरक्षा विभाग से सम्बंधित हों। इसी प्रकार इस्लाम भी समस्त मानवजगत और सम्पूर्ण ब्रह्माण्ड के लिए एकमात्र सत्यधर्म है। इस्लाम के दो नगर मक्का और मदीना किसी सैनिक छावनी के समान महत्वपूर्ण और पवित्र हैं, इन नगरों में प्रवेश करने का उन्हें ही अधिकार है जो इस्लाम में विश्वास रखते हों और उसकी प्रतिरक्षा में शरीक हों। अर्थात केवल मुसलमान ही इन नगरों में जा सकते हैं।
सैनिक संस्थानों और सेना की छावनियों में प्रवेश पर प्रतिबन्ध के विरुद्ध एक सामान्य नागरिक का विरोध करना ग़ैर कषनूनी होता है। अतः ग़ैर मुस्लिमों के लिये भी यह उचित नहीं है कि वे मक्का और मदीना में ग़ैर मुस्लिमों के प्रवेश पर पाबन्दी का विरोध करें।

मक्का और मदीना में प्रवेश का वीसा

1. जब कोई व्यक्ति किसी अन्य देश की यात्रा करता है तो उसे सर्वप्रथम उस देश में प्रवेश करने का अनुमति पत्र ;टपेंद्ध प्राप्त करना पड़ता है। प्रत्येक देश के अपने कषयदे कानून होते हैं जो उनकी ज़रूरत और व्यवस्था के अनुसार होते हैं तथा उन्हीं के अनुसार वीसा जारी किया जाता है। जब तक उस देश के कानून की सभी शर्तों को पूरा न कर दिया जाए उस देश के राजनयिक कर्मचारी वीसा जारी नहीं करते।
2. वीसा जारी करने के मामले में अमरीका अत्यंत कठोर देश है, विशेष रूप से तीसरी दुनिया के नागरिकों को वीसा देने के बारे में, अमरीकी आवर्जन कानून की कड़ी शर्तें हैं जिन्हें अमरीका जाने के इच्छुक को पूरा करना होता है।
3. जब मैं सिंगापुर गया था तो वहाँ के इमैग्रेशन फ़ार्म पर लिखा था ‘‘नशे की वस्तुएँ स्मगल करने वाले को मृत्युदण्ड दिया जायेगा।’’ यदि मैं सिंगापुर जाना चाहूँ तो मुझे वहाँ के कानून का पालन करना होगा। मैं यह नहीं कह सकता कि उनके देश में मृत्युदण्ड का निर्दयतापूर्ण और क्रूर प्रावधान क्यों है। मुझे तो केवल उसी अवस्था में वहाँ जाने की अनुमति मिलेगी जब उस देश के कानून की सभी शर्तों के पालन का इकष्रार करूंगा।
4. मक्का और मदीना का वीसा अथवा वहाँ प्रवेश करने की बुनियादी शर्त यह है कि मुख से ‘‘ला इलाहा इल्लल्लाहु, मुहम्मदुर्रसूलल्लाहि’’ (कोई ईश्वर नहीं, सिवाय अल्लाह के (और) मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) अल्लाह के सच्चे सन्देष्टा हैं), कहकर मन से अल्लाह के एकमात्र होने का इकरार किया जाए और हज़रत मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) को अल्लाह का सच्चा रसूल स्वीकार किया जाए।

सुअर का मांस हराम है

प्रश्नः इस्लाम में सुअर का मांस खाना क्यों वर्जित है?
उत्तरः इस्लाम में सुअर का माँस खाना वर्जित होने की बात से सभी परिचित हैं। निम्नलिखित तथ्यों द्वारा इस प्रतिबन्ध की व्याख्या की गई है। पवित्र क़ुरआन में कम से कम चार स्थानों पर सुअर का मांस खाने की मनाही की गई है। पवित्र क़ुरआन की सूरह 2, आयत 173, सूरह 5, आयत 3, सूरह 6, आयत 145, सूरह 16, आयत 115 में इस विषय पर स्पष्ट आदेश दिये गए हैं:
‘‘तुम पर हराम किया गया मुरदार (ज़िब्हा किये बिना मरे हुए जानवर) का मांस, सुअर का मांस और वह जानवर जो अल्लाह के नाम के अतिरिक्त किसी और नाम पर ज़िब्हा किया गया हो, जो गला घुटने से, चोट खाकर, ऊँचाई से गिरकर या टक्कर खाकर मरा हो, या जिसे किसी दरिन्दे नें फाड़ा हो सिवाय उसके जिसे तुम ने ज़िन्दा पाकर ज़िब्हा कर लिया और वह जो किसी आस्ताने (पवित्र स्थान, इस्लाम के मूल्यों के आधार पर) पर ज़िब्हा किया गया हो।’’ (पवित्र क़ुरआन , 5ः3)
इस संदर्भ में पवित्र क़ुरआन की सभी आयतें मुसलमानों को संतुष्ट करने हेतु पर्याप्त है कि सुअर का मांस क्यों हराम है।

बाइबल ने भी सुअर का मांस खाने की मनाही की है

संभवतः ईसाई लोग अपने धर्मग्रंथ में तो विश्वास रखते ही होंगे। बाइबल में सुअर का मांस खाने की मनाही इस प्रकार की गई हैः

‘‘और सुअर को, क्योंकि उसके पाँव अलग और चिरे हुए हैं। पर वह जुगाली (पागुर) नहीं करता, वह भी तुम्हारे लिये अपवित्र है, तुम उनका मांस न खाना, उनकी लााशों को न छूना, वह तुम्हारे लिए अपवित्र हैं।’’ (ओल्ड टेस्टामेंट, अध्याय 11, 7 से 8)
कुछ ऐसे ही शब्दों के साथ ओल्ड टेस्टामेंट की पाँचवी पुस्तक में सुअर खाने से मना किया गया हैः

‘‘और सुअर तुम्हारे लिए इस कारण से अपवित्र है कि इसके पाँव तो चिरे हुए हैं परन्तु वह जुगाली नहीं करता, तुम न तो उनका माँस खाना और न उनकी लाशों को हाथ लगाना।’’ (ओल्ड टेस्टामेंट, अध्याय 14ः8)

ऐसी ही मनाही बाइबल (ओल्ड टेस्टामेंट, अध्याय 65, वाक्य 2 ता 5) में भी मौजूद है।

सुअर के मांसाहार से अनेक रोग उत्पन्न होते हैं

अब आईए! ग़ैर मुस्लिमों और ईश्वर को न मानने वालों की ओर, उन्हें तो बौद्धिक तर्क, दर्शन और विज्ञान के द्वारा ही कषयल किया जा सकता है। सुअर का मांस खाने से कम से कम 70 विभिन्न रोग लग सकते हैं। एक व्यक्ति के उदर में कई प्रकार के कीटाणु हो सकते हैं, जैसे राउण्ड वर्म, पिन वर्म और हुक वर्म इत्यादि। उनमें सबसे अधिक घातक टाईनिया सोलियम (Taenia Soliam) कहलाता है। सामान्य रूप से इसे टेपवर्म भी कहा जाता है। यह बहुत लम्बा होता है और आंत में रहता है। इसके अण्डे (OVA)रक्त प्रवाह में मिलकर शरीर के किसी भी भाग में पहुंच सकते हैं। यदि यह मस्तिष्क तक जा पहुंचे तो स्मरण शक्ति को बहुत हानि पहुंचा सकते हैं। यदि दिल में प्रवेश कर जाए तो दिल का दौरा पड़ सकता है। आँख में पहुंच जाए तो अंधा कर सकते हैं। जिगर में घुसकर पूरे जिगर को नष्ट कर सकते हैं। इसी प्रकार शरीर के किसी भाग को हानि पहुंचा सकते हैं। पेट में पाया जाने वाला एक अन्य रोगाणु Trichura Lichurasiहै।
यह एक सामान्य भ्रांति है कि यदि सुअर के मांस को भलीभांति पकाया जाए तो इन रोगाणुओं के अण्डे नष्ट हो जाएंगे। अमरीका में किये गए अनुसंधान के अनुसार ट्राईक्योरा से प्रभावित 24 व्यक्तियों में 20 ऐसे थे जिन्होंने सुअर का माँस अच्छी तरह पकाकर खाया था। इससे पता चला कि सुअर का मांस अच्छी तरह पकाने पर सामान्य तापमान पर भी उसमें मौजूद रोगाणु नहीं मरते जो भोजन पकाने के लिए पर्याप्त माना जाता है।

सुअर के मांस में चर्बी बढ़ाने वाला तत्व होता है

सुअर के मांस में ऐसे तत्व बहुत कम होते हैं जो मांसपेशियों को विकसित करने के काम आते हों। इसके विपरीत यह चर्बी से भरपूर होता है। यह वसा रक्त नलिकाओं में एकत्र होती रहती है और अंततः 
अत्याधिक दबाव (हाइपर टेंशन) ओर हृदयघात का कारण बन सकती है। अतः इसमें कोई आश्चर्य नहीं कि 50 प्रतिशत से अधिक अमरीकियों को हाइपर टेंशन का रोग लगा हुआ है।

सुअर संसार के समस्त जानवरों से अधिक घिनौना जीव

सुअर संसार में सबसे अधिक घिनौना जानवर है। यह गंदगी, मैला इत्यादि खाकर गुज़ारा करता है। मेरी जानकारी के अनुसार यह बेहतरीन सफ़ाई कर्मचारी है जिसे ईश्वर ने पैदा किया है। वह ग्रामीण क्षेत्र जहाँ शौचालय आदि नहीं होते और जहाँ लोेग खुले स्थानों पर मलमूत्र त्याग करते हैं, वहाँ की अधिकांश गन्दगी यह सुअर ही साफ़ करते हैं।
कुछ लोग कह सकते हैं कि आस्ट्रेलिया जैसे उन्नत देशों में सुअर पालन स्वच्छ और स्वस्थ वातावरण में किया जाता है। परन्तु इतनी सावधानी के बावजूद कि जहाँ सुअरों को बाड़ों में अन्य पशुओं से अलग रखा जाता है, कितना ही प्रयास कर लिया जाए कि उन्हें स्वच्छ रखा जा सके किन्तु यह सुअर अपनी प्राकृतिक प्रवत्ति में ही इतना गन्दा है कि उसे अपने साथ के जानवरों का मैला खाने ही में आनन्द आता है।

सुअर सबसे निर्लज्ज जानवर

इस धरती पर सबसे ज़्यादा बेशर्म जानवर केवल सुअर है। सुअर एकमात्र जानवर है जो अपनी मादिन (Mate) के साथ सम्भोग में अन्य सुअरों को आमंत्रिक करता है। अमरीका में बहुत से लोग सुअर खाते हैं अतः वहाँ इस प्रकार का प्रचलन आम है कि नाच-रंग की अधिकतर पार्टियों के पश्चात लोग अपनी पत्नियाँ बदल लेते हैं, अर्थात वे कहते हैं‘ ‘‘मित्र! तुम मेरी पत्नी और मैं तुम्हारी पत्नी के साथ आनन्द लूंगा’’
यदि कोई सुअर का मांस खाएगा तो सुअर के समान ही व्यवहार करेगा, यह सर्वमान्य तथ्य है।


शराब की मनाही

प्रश्नः इस्लाम में शराब पीने की मनाही क्यों है?
उत्तरः मानव संस्कृति की स्मृति और इतिहास आरंभ होने से पहले से शराब मानव समाज के लिए अभिशाप बनी हुई है। यह असंख्य लोगों के प्राण ले चुकी है। यह क्रम अभी चलता जा रहा है। इसी के कारण विश्व के करोड़ों लोगों का जीवन नष्ट हो रहा है। समाज की अनेकों समस्याओं की बुनियादी वजह केवल शराब है। अपराधों में वृद्धि और विश्वभर में करोड़ों बरबाद घराने शराब की विनाशलीला का ही मौन उदाहरण है।

पवित्र क़ुरआन में शराब की मनाही

निम्नलिखित पवित्र आयत में क़ुरआन हमें शराब से रोकता है।
‘‘हे लोगो! जो ईमान लाए हो! यह शराब, जुआ और यह आस्ताने और पांसे, यह सब गन्दे और शैतानी काम हैं। इनसे परहेज़ करो, उम्मीद है कि तुम्हें भलाई प्राप्त होगी।’’ (सूरह 5, आयत 90)

बाईबल में मदिरा सेवन की मनाही

बाईबल की निम्नलिखित आयतों में शराब पीने की बुराई बयान की गई हैः
‘‘शराब हास्यास्पद और हंगामा करने वाली है, जो कोई इनसे धोखा खाता है (वह) बुद्धिमान नहीं।’’ (दृष्टांत अध्याय 20, आयत 1)
‘‘और शराब के नशे में मतवाले न बनो।’’ (अफ़सियों, अध्याय 5, आयत 18)
मानव मस्तिष्क का एक भाग ‘‘निरोधी केंद्र’’ (Inhibitory Centre) कहलाता है। इसका काम है मनुष्य को ऐसी क्रियाओं से रोकना जिन्हें वह स्वयं ग़लत समझता हो। जैसे सामान्य व्यक्ति अपने बड़ों के सामने अशलील भाषा का प्रयोग नहीं करता। इसी प्रकार यदि किसी व्यक्ति को शौच की आवश्यकता होती है वह सबके सामने नहीं करता और शौचालय की ओर रुख़ करता है।

जब कोई शराब पीता है तो उसका निरोधी केंद्र स्वतः ही काम करना बन्द कर देता है। यही कारण है कि शराब के नशे में धुत होकर वह व्यक्ति ऐसी क्रियाएं करता है जो सामान्यतः उसकी वास्तविक प्रवृति से मेल नहीं खातीं। जेसे नशे में चूर व्यक्ति अशलील भाषा बोलने में कोई शर्म महसूस नहीं करता। अपनी ग़लती भी नहीं मानता, चाहे वह अपने माता-पिता से ही क्यों न बात कर रहा हो। शराबी अपने कपड़ों में ही मूत्र त्याग कर लेते हैं, वे न तो ठीक से बात कर पाते हैं और न ही ठीक से चल पाते हैं, यहाँ तक कि वे अभद्र हरकतें भी कर गुज़रते हैं।

व्यभिचार, बलात्कार, वासनावृत्ति की घटनाएं शराबियों में अधिक होती हैं। अमरीकी प्रतिरक्षा मंत्रालय के ‘‘राष्ट्रीय अपराध प्रभावितों हेतु सर्वेक्षण एंव न्याय संस्थान’’ के अनुसार 1996 के दौरान अमरीका में बलात्कार की प्रतिदिन घटनाएं 20,713 थीं। यह तथ्य भी सामने आया कि अधिकांश बलात्कारियों ने यह कुकृत्य नशे की अवस्था में किया। छेड़छाड़ के मामलों का कारण भी अधिकतर नशा ही है।

आंकड़ों के अनुसार 8 प्रतिशत अमरीकी इनसेस्ट ;प्दबमेजद्ध से ग्रसित हैं। इसका मतलाब यह हुआ कि प्रत्येक 12 अथवा 13 में से एक अमरीकी इस रोग से प्रभावित है। इन्सेस्ट की अधिकांश घटनाएं मदिरा सेवन के कारण घटित होती हैं जिनमें एक या दो लोग लिप्त हो जाते हैं।

(अंग्रेज़ी शब्द प्दबमेज का अनुवाद किसी शब्दकोक्ष में नहीं मिलता। परन्तु इसकी व्याख्या से इस कृत्य के घिनौनेपन का अनुमान लगाया जा सकता है। ऐसे निकट रिश्ते जिनके बीच धर्म, समाज और कानून के अनुसार विवाह वार्जित है, उनसे शरीरिक सम्बन्ध को प्दबमेज कहा जाता है।’’) अनुवादक

इसी प्रकार एड्स के विनाशकारी रोग के फैलाव के कारणों में एक प्रमुख कारण मदिरा सेवन ही है।

प्रत्येक शराब पीने वाला ‘‘सामाजिक’’ रूप से ही पीना आरंभ करता है

बहुत से लोग ऐसे हैं जो मदिरापान के पक्ष में तर्क देते हुए स्वयं को ‘‘सामाजिक पीने वाला’’ ;ैवबपंस क्तपदामतद्ध बताते हैं और यह दावा करते हैं कि वे एक या दो पैग ही लिया करते हैं और उन्हें स्वयं पर पूर्ण नियंत्रण रहता है और वे कभी पीकर उन्मत्त नहीं होते। खोज से पता चला है कि अधिकांश घोर पियक्कड़ों ने आरंभ इसी ‘‘सामाजिक’’ रूप से किया था। वास्तव में कोई पियक्कड़ ऐसा नहीं है जिसने शराब पीने का आंरभ इस इरादे से किया हो कि आगे चलकर वह इस लत में फंस जाएगा। इसी प्रकार कोई ‘‘सामाजिक पीने वाला’’ यह दावा नहीं कर सकता कि वह वर्षों से पीता आ रहा है और यह कि उसे स्वयं पर इतना अधिक नियंत्रण है कि वह पीकर एक बार भी मदहोश नहीं हुआ।

यदि कोई व्यक्ति नशे में एकबार कोई शर्मनाक हरकत कर बैठे तो वह सारी ज़िन्दगी उस के साथ रहेगी

माल लीजिए एक ‘‘सामाजिक पियक्कड़’’ अपने जीवन में केवल एक बार (नशे की स्थिति में) अपना नियंत्रण खो देता है और उस स्थिति में प्दबमेज का अपराध कर बैठता है तो पश्ताचाप जीवन पर्यन्त उसका साथ नहीं छोड़ता और वह अपराध बोध की भावना से ग्रस्त रहेगा। अर्थात अपराधी और उसका शिकार दोनों ही का जीवन इस ग्लानि से नष्टप्राय होकर रह जाएगा।

पवित्र हदीसों में शराब की मनाही

हुजूर सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः
(क) ‘‘शराब तमाम बुराईयों की माँ है और तमाम बुराईयों में सबसे ज़्यादा शर्मनाक है।’’ (सुनन इब्ने माजह, जिल्द 3, किताबुल ख़म्र, अध्याय 30, हदीस 3371)

(ख) ‘‘प्रत्येक वस्तु जिसकी अधिक मात्रा नशा करती हो, उसकी थोड़ी मात्रा भी हराम है।’’ (सुनन इब्ने माजह, किताबुल ख़म्र, हदीस 3392)

इस हदीस से अभिप्राय यह सामने आता है कि एक घूंट अथवा कुछ बूंदों की भी गुंजाईश नहीं है।

(ग) केवल शराब पीने वालों पर ही लानत नहीं की गई, बल्कि अल्लाह तआला के नज़दीक वे लोग भी तिरस्कृत हैं जो शराब पीने वालों के साथ प्रत्यक्ष अथवा अप्रत्यक्ष संमबन्ध रखें। सुनन इब्ने माजह में किताबुल ख़म्र की हदीस 3380 के अनुसार हुजूर सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः

‘‘अल्लाह की लानत नाज़िल होती है उन 10 प्रकार के समूहों पर जो शराब से सम्बंधित हैं। एक वह समूह जो शराब बनाए, और दूसरा वह जिसके लिए शराब बनाई जाए। एक वह जो उसे पिये और दूसरा वह जिस तक शराब पहुंचाई जाए, एक वह जो उसे परोसे। एक वह जो उसको बेचे, एक वह जो इसके द्वारा अर्जित धन का उपयोग करे। एक वह जो इसे ख़रीदे। और एक वह जो इसे किसी दूसरे के लिये ख़रीदे।’’

शराब पीने से जुड़ी बीमारियाँ

वैज्ञानिक दृष्टिकोण से देखा जाए तो शराब से दूर रहने के अनेक बौद्धिक कारण मिलेंगे। यदि विश्व में मृत्यु का कोई बड़ा कारण तलाश किया जाए तो पता चलेगा कि शराब एक प्रमुख कारण है। प्रत्येक वर्ष लाखों लोग शराब की लत के कारण मृत्यु को प्राप्त हैं। मुझे इस जगह शराब के बुरे प्रभावों के विषय में अधिक लिखने की आवश्यकता नहीं क्योंकि इन बातों से सम्भवतः सभी परिचित हैं। फिर भी शराब के सेवन से उत्पन्न रोगों की संक्षिप्त सूची अवश्य दी जा रही है।
1. जिगर (लीवर) की सिकुड़न की बीमारी, शराब पीने के द्वारा अधिक होती है, यह सर्वमान्य हैं।

2. शराब पीने से आहार नलिका का कैंसर, सिर और गर्दन का कैंसर, तथा पाकाशय (मेदा) का कैंसर इत्यादि होना आम बात है।

3. आहार नलिका की जलन और सूजन, मेदे पर सूजन, पित्ते की ख़राबी तथा हेपिटाईटिस का सम्बन्ध भी शराब के सेवन से है।

4. हृदय से सम्बंधित समस्त रोगों, और हृदयघात से भी शराब का
सीधा सम्बन्ध है।

5. स्ट्रोक, एपोप्लेक्सी, हाईपर टेंशन, फ़िट्स तथा अन्य प्रकार के पक्षाघात का सम्बन्ध भी शराब से है।

6. पेरीफ़ेरल न्यूरोपैथी, कोर्टिकल एटरोफ़ी और सिरबेलर एटरोफ़ी जैसे लक्षण भी मदिरा सेवन से ही उत्पन्न होते हैं।

7. स्मरण शक्ति का क्षीण हो जाना, बोलचाल और स्मृति में केवल पूर्व की घटनाओं के ही शेष रह जाने का कारण थाईमिन की कमी से होता है जो शराब के अत्याधिक सेवन से उत्पन्न होती है।

8. बेरी-बेरी और अन्य विकार भी शाराबियों में पाए जाते हैं, यहाँ तक कि उन्हें प्लाजरा भी हो जाता है।

9. डीलेरियम टर्मिनस एक गम्भीर रोग है जो किसी विकार के उभरने के दौरान आप्रेशन के पश्चात लग सकता है। यह शराब पीना छोड़ने के एक प्रभाव के रूप में भी प्रकट हो सकता है। यह स्थिति बहुत जटिल है और प्रायः मृत्यु का कारण भी बन सकती है।

10. मूत्र तथा गुर्दों की अनेक समस्याएं भी मदिरा सेवन से सम्बद्ध हैं जिनमें मिक्सोडीमिया से लेकर हाईपर थाईराडिज़्म और फ़्लोर डिक्शिंग सिंडरोम तक शामिल हैं।
11. रक्त पर मदिरा सेवन के नकरात्मक प्रभावों की सूची बहुत लम्बी है किन्तु फ़ोलिक एसिड में कमी एक ऐसा प्रतीक है जो अधिक मदिरा सेवन का सामान्य परिणाम है और जो माईक्रो साइटिक एनेमिया के रूप में प्रकट होता है। ज़्युज़ सिंडरोम तीन रोगों का संग्रह है जो पियक्कड़ों की ताक में रहते हैं जो कि हेमोलेटिक एनेमया, जानडिस (पीलिया) और हाईपर लाइपेडीमिया का संग्रह हैं।
12. थ्रम्बो साइटोपीनिया और प्लेटलिट्स के अन्य विकार पीने वालों में सामान्य हैं।
13. सामान्य रूप से उपयोग की जाने वाली औषधि अर्थात फ़्लेजल’ (मेट्रोनेडाज़ोल) भी शराब के साथ बुरे प्रभाव डालती है।

14. किसी रोग का बार-बार आक्रमण करना, शराबियों में बहुत आम है। कारण यह है कि अधिक मदिरा सेवन से उनके शरीर की बीमारियों के विरुद्ध अवरोधक क्षमता क्षीण हो जाती है।

15. छाती के विभिन्न विकार भी पीने वालों में बहुतायत से पाए जाते हैं। निमोनिया, फेफड़ों की ख़राबी तथा क्षयरोग शराबियों में सामान्य रूप से पाए जाते हैं।
16. अधिक शराब पीकर अधिकांश शराबी वमन कर दते हैं, खाँसी की शारीरिक प्रतिक्रिया जो सुरक्षा व्यवस्था का कार्य करती है उस दौरान असफल हो जाती है अतः उल्टी से निकलने वाला द्रव्य सहज में फेफड़ों तक जा पहुंचता है और निमोनिया या फेफड़ों के विकार का कारण बनता है। कई बार इसका परिणाम दम घुटने तथा मृत्यु के रूप में भी प्रकट होता है।

17. महिलाओं में मदिरा सेवन के हानिकारक प्रभावों की चर्चा विशेष रूप से की जानी आवश्यक है। पुरुषों की अपेक्षा महिलाओं को मदिरा सेवन से अधिक हानि की आशंका होती है। गर्भावस्था में मदिरा सेवन से गर्भाशय पर घातक प्रभाव पड़ता है। मेडिकल साइंस में ‘‘फ़ैटल अलकोहल सिंडरोम’’ से सम्बद्ध शंकाएं दिनो-दिन बढ़ती जा रही है।
18. मदिरा सेवन से त्वचा रोगों की पूरी सम्भावना है।

19. एगज़ीमा, एलोपेशिया, नाख़ुनों की बनावट बिगड़ना, पेरोनेशिया अर्थात नाख़ुनों के किनारों का विकार, एंगुलर स्टोमाटाईटिस (मुँह के जोड़ों में जलन) वह सामान्य बीमारियाँ हैं जो शराबियों में पाई जाती हैं।

मदिरा सेवन एक ‘‘बीमारी’’ है

चिकित्सा शास्त्री अब शराब पीने वालों के विषय में खुलकर विचार व्यक्त करते हैं। उनका कहना है कि मदिरा सेवन कोई आदत या नशा नहीं बल्कि एक बीमारी है। इस्लामिक रिसर्च फ़ाउण्डेशन नामक संस्था ने एक पुस्तिका प्रकाशित की है जिसमें कहा गया है कि शराब एक बीमारी है जोः

१. बातलों में बेची हाती है।

२. जिसका प्रचार समाचार पत्रों, पत्रिकाओं, रेडियो और टी.वी. पर किया जाता है।

३. जिसे फैलाने के लिए दुकानों को लायसेंस दिये जाते हैं।

४. सरकार के राजस्व आय का साधन है

५. सड़कों पर भयंकर दुर्घटनाओं का कारण बनती हैं

६. पारिवारिक जीवन को नष्ट करती है तथा अपराधों में बढ़ौतरी करती है।

७. इसका कारण कोई रोगााणु अथवा वायरस नहीं है।

8. मदिरा सेवन कोई रोग नहींयह तो शैतान की कारीगरी है।

अल्लाह तआला ने हमें इस शैतानी कुचक्र से सावधान किया है। इस्लाम ‘‘दीन-ए-
फ़ितरत’’ (प्राकृतिक धर्म) कहलाता है। अर्थात ऐसा धर्म जो मानव के प्रकृति के अनुसार है। इस्लाम के समस्त प्रावधानों का उद्देश्य यह है कि मानव की प्रकृति की सुरक्षा की जाए। शराब और मादक द्रव्यों का सेवन प्रकृति के विपरीत कृत्य है जो व्यक्ति और समाज में बिगाड़ का कारण बन सकता है। शराब मनुष्य को उसकी व्यक्तिगत मानवीय प्रतिष्ठा और आत्म सम्मान से वंचित कर उसे पाश्विक स्तर तक ले जाती है। इसीलिए इस्लाम में शराब पीने की घोर मनाही है और इसे महापाप ठहराया गया है।

गवाहों की समानता

प्रश्नः क्या कारण है कि इस्लाम में दो स्त्रियों की गवाही एक पुरुष के समान ठहराई जाती है?
उत्तरः दो स्त्रियों की गवाही एक पुरुष की गवाही के बराबर हमेशा नहीं ठहराई जाती।
(क) जब विरासत की वसीयत का मामला हो तो दो न्यायप्रिय (योग्य) व्यक्तियों की गवाही आवश्यक है।
पवित्र क़ुरआन की कम से कम 3 आयतें हैं जिनमें गवाहों की चर्चा स्त्री अथवा पुरुष की व्याख्या के बिना की गई है। जैसेः
‘‘ए लोगो! जो ईमान लाए हो, जब तुम में से किसी की मृत्यु का समय आ जाए और वह वसीयत कर रहा हो तो उसके लिए साक्ष्य का नियम यह है कि तुम्हारी जमाअत (समूह) में से दो न्यायप्रिय व्यक्ति गवाह बनाए जाएं। या यदि तुम यात्रा की स्थिति में हो और वहाँ मृत्यु की मुसीबत पेश आए तो ग़ैर (बेगाने) लोगों में से दो गवाह बनाए जाएं।’’ (सूरह अल-मायदा, आयत 106)

(ख) तलाक के मामले में दो न्यायप्रिय लोगों की बात की गई हैः

‘‘फिर जब वे अपनी (इद्दत) की अवधि की समाप्ति पर पहुंचें तो या तो भले तरीके से (अपने निकाह) में रोक रखो, या भले तरीके से उनसे जुदा हो जाओ और दो ऐसे लोगों को गवाह बना लो जो तुम में न्यायप्रिय हों और (हे गवाह बनने वालो!) गवाही ठीक-ठीक और अल्लाह के लिए अदा करो।’’ (पवित्र क़ुरआन 65ः2)

(इस जगह इद्दत की अवधि की व्याख्या ग़ैर मुस्लिम पाठकों के लिए करना आवश्यक जान पड़ता है। इद्दत का प्रावधान इस्लामी शरीअत में इस प्रकार है कि यदि पति तलाकष् दे दे तो पत्नी 3 माह 10 दिन तक अपने घर में परिजनों की देखरेख में सीमित रहे, इस बीच यदि तलाकष् देने वाले पति से वह गर्भवती है तो उसका पता चल जाएगा। यदि पति की मृत्यु हो जाती है तो इद्दत की अवधि 4 माह है। यह इस्लाम की विशेष सामाजिक व्यवस्था है। इन अवधियों में स्त्री दूसरा विवाह नहीं कर सकती।) अनुवादक

(ग) स्त्रियों के विरूद्ध बदचलनी के आरोप लगाने के सम्बन्ध में चार गवाहों का प्रावधान किया गया हैः

‘‘और जो लोग पाकदामन औरतों पर तोहमत लगाएं और फिर 4 गवाह लेकर न आएं, उनको उसी कोड़े से मारो और उनकी गवाही न स्वीकार करो और वे स्वयं ही झूठे हैं।’’ (पवित्र क़ुरआन 24ः4)

पैसे के लेन-देन में दो स्त्रियों की गवाही
एक पुरुष की गवाही के बराबर होती है

यह सच नहीं है कि दो गवाह स्त्रियाँ हमेशा एक पुरुष के बराबर समझी जाती हैं। यह बात केवल कुछ मामलों की हद तक ठीक है, पवित्र क़ुरआन में ऐसी लगभग पाँच आयते हैं जिनमें गवाहों की स्त्री-पुरुष के भेद के बिना चर्चा की गई है। इसके विपरीत पवित्र क़ुरआन की केवल एक आयत है जो यह बताती है कि दो गवाह स्त्रियाँ एक पुरुष के बराबर हैं। यह पवित्र क़ुरआन की सबसे लम्बी आयत भी है जो व्यापारिक लेन-देन के विषय में समीक्षा करती है। इस पवित्र आयत में अल्लाह तआला का फ़रमान हैः

‘‘ए लोगो! जो ईमान लाए हो, जब किसी निर्धारित अवधि के लिये तुम आपस में कष्र्ज़ का लेन-देन करो तो उसे लिख लिया करो। दोनों पक्षों के बीच न्याय के साथ एक व्यक्ति दस्तावेज़ लिखे, जिसे अल्लाह ने लिखने पढ़ने की योग्यता प्रदान की हो उसे लिखने से इंकार नहीं करना चाहिए, वह लिखे और वह व्यक्ति इमला कराए (बोलकर लिखवाए) जिस पर हकष् आता है (अर्थात कष्र्ज़ लेने वाला) और उसे अल्लाह से, अपने रब से डरना चाहिए, जो मामला तय हुआ हो उसमें कोई कमी-बेशी न करे, लेकिर यदि कष्र्ज़ लेने वाला अज्ञान या कमज़ोर हो या इमला न करा सकता हो तो उसका वली (संरक्षक अथवा प्रतिनिधि) न्याय के साथ इमला कराए। फिर अपने पुरूषों में से दो की गवाही करा लो। ओर यदि दो पुरुष न हों तो एक पुरुष और दो स्त्रियाँ हों ताकि एक भूल जाए तो दूसरी उसे याद दिला दे।’’ (पवित्र क़ुरआन , सूरह बकष्रह आयत 282)

ध्यान रहे कि पवित्र क़ुरआन की यह आयत केवल और केवल व्यापारिक कारोबारी (रूपये पैसे के) लेन-देन से सम्बंधित है। ऐसे मामलों में यह सलाह दी गई है कि दो पक्ष आपस में लिखित अनुबंध करें और दो गवाह भी साथ लें जो दोनों (वरीयता में) पुरुष हों। यदि आप को दो पुरुष न मिल सकें तो फिर एक पुरुष और दो स्त्रियों की गवाही से भी काम चल जाएगा।

मान लें कि एक व्यक्ति किसी बीमारी के इलाज के लिए आप्रेशन करवाना चाहता है। इस इलाज की पुष्टि के लिए वह चाहेगा कि दो विशेषज्ञ सर्जनों से परामर्श करे, मान लें कि यदि उसे दूसरा सर्जन न मिले तो दूसरा चयन एक सर्जन और दो सामान्य डाक्टरों (जनरल प्रैक्टिशनर्स) की राय होगी (जो सामान्य एम.बी.बी.एस) हों।
इसी प्रकार आर्थिक लेन-देन में भी दो पुरुषों को तरजीह (प्रमुखता) दी जाती है। इस्लाम पुरुष मुसलमानों से अपेक्षा करता है कि वे अपने परिवारजनों का कफ़ील (ज़िम्मेदार) हो। और यह दायित्व पूरा करने के लिए रुपया पैसा कमाने की ज़िम्मेदारी पुरुष के कंधों पर है। अतः उसे स्त्रियों की अपेक्षा आर्थिक लेन-देन के बारे में पूरी जानकारी होनी चाहिए। दूसरे साधन के रुप में एक पुरुष और दो स्त्रियों को गवाह के रुप में लिया जा सकता है ताकि यदि उन स्त्रियों में से कोई एक भूल करे तो दूसरी उसे याद दिला दे। पवित्र क़ुरआन में अरबी शब्द ‘‘तनज़ील’’ का उपयोग किया गया है जिसका अर्थ कन्फ़यूज़ हो जानाया ग़लती करनाके लिए किया जाता है। बहुत से लोगों ने इसका ग़लत अनुवाद करके इसे ‘‘भूल जाना’’ बना दिया है, अतः आर्थिक लेन-देन में (इस्लाम में) ऐसा केवल एक उदाहरण है जिसमें दो स्त्रियों की गवाही को एक पुरुष के बराबर कष्रार दिया गया है।

हत्या के मामलों में भी दो गवाह स्त्रियाँ
एक पुरुष गवाह के बराबर हैं

तथपि कुछ उलेमा की राय में नारी का विशेष और स्वाभाविक रवैया किसी हत्या के मामले में भी गवाही पर प्रभावित हो सकता है। ऐसी स्थिति में कोई स्त्री पुरुष की अपेक्षा अधिक भयभीत हो सकती है। अतः कुछ व्याख्याकारों की दृष्टि में हत्या के मामलों में भी दो साक्षी स्त्रियाँ एक पुरुष साक्षी के बराबर मानी जाती हैं। अन्य सभी मामलों में एक स्त्री की गवाही एक पुरुष के बराबर कष्रार दी जाती है।
पवित्र क़ुरआन स्पष्ट रूप से बताता है कि 

एक गवाह स्त्री एक गवाह पुरुष के बराबर है

कुछ उलेमा ऐसे भी हैं जो यह आग्रह करते हैं कि दो गवाह स्त्रियों के एक गवाह पुरुष के बराबर होने का नियम सभी मामलों पर लागू होना चाहिए। इसका समर्थन नहीं किया जा सकता क्योंकि पवित्र क़ुरआन ने सूरह नूर की आयत नम्बर 6 में स्पष्ट रूप से एक गवाह औरत को एक पुरुष गवाह के बराबर कष्रार दिया हैः
‘‘और जो लोग अपनी पत्नियों पर लांच्छन लगाएं, और उनके पास सिवाय स्वयं के दूसरे कोई गवाह न हों उनमें से एक व्यक्ति की गवाही (यह है कि) चार बार अल्लाह की सौगन्ध खाकर गवाही दे कि वह (अपने आरोप में) सच्चा है और पाँचवी बार कहे कि उस पर अल्लाह की लानत हो, अगर वह (अपने आरोप में) झूठा हो। और स्त्री से सज़ा इस तरह टल सकती है कि वह चार बार अल्लाह की सौगन्ध खाकर गवाही दे कि यह व्यक्ति (अपने आरोप में) झूठा है, और पाँचवी बार कहे कि इस बन्दी पर अल्लाह का ग़ज़ब (प्रकोप) टूटे अगर वह (अपने आरोप में) सच्चा हो।’’ (सूरह नूर 6 से 9)

हदीस को स्वीकारने हेतु हज़रत आयशा (रज़ियल्लाहु अन्हा) की अकेली गवाही पर्याप्त है उम्मुल मोमिनीन (समस्त मुसलमानों की माता) हज़रत आयशा रजि़. (हमारे महान पैग़म्बर सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की पत्नी) के माध्यम से कम से कम 12,220 हदीसें बताई गई हैं। जिन्हें केवल हज़रत आयशा रजि़. एकमात्र गवाही के आधार पर प्रामाणिक माना जाता है।
(इस जगह यह जान लेना अनिवार्य है कि यह बात उस स्थिति में सही है कि जब कोई पवित्र हदीस (पैग़म्बर हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के कथन अथवा कार्य की चर्चा अर्थात हदीस के उसूलों पर खरी उतरती हो (अर्थात किसने किस प्रकार क्या बताया) के नियम के अनुसार हो, अन्यथा वह हदीस चाहे कितने ही बड़े सहाबी (वे लोग जिन्होंने सरकार सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को देखा सुना है) के द्वारा बताई गई हो, उसे अप्रामाणिक अथवा कमज़ोर हदीसों में माना जाता है।) अनुवादक
यह इस बात का स्पष्ट सबूत है कि एक स्त्री की गवाही भी स्वीकार की जा सकती है। अनेक उलेमा तथा इस्लामी विद्वान इस पर एकमत हैं कि नया चाँद दिखाई देने के मामले में एक (मस्लिम) स्त्री की साक्षी पर्याप्त है। कृपया ध्यान दें कि एक स्त्री की साक्षी (रमज़ान की स्थिति में) जो कि इस्लाम का एक स्तम्भ है, के लिये पर्याप्त ठहराई जा रही है। अर्थात वह मुबारक और पवित्र महीना जिसमें मुसलमान रोज़े रखते हैं, गोया रमज़ान शरीफ़ के आगमन जैसे महत्वपूर्ण मामले में स्त्री-पुरुष उसे स्वीकार कर रहे हैं। इसी प्रकार कुछ फुकहा (इस्लाम के धर्माचार्यों) का कहना है कि रमज़ान का प्रारम्भ (रमज़ान का चाँद दिखाई देने) के लिए एक गवाह, जबकि रमज़ान के समापन (ईदुलफ़ित्र का चाँद दिखाई देने) के लिये दो गवाहों का होना ज़रूरी है। यहाँ भी उन गवाहों के स्त्री अथवा पुरुष होने की कोई भी शर्त नहीं है।
कुछ मुसलमानों में स्त्री की गवाही को अधिक तरजीह दी जाती है

कुछ घटनाओं में केवल और केवल एक ही स्त्री की गवाही चाहिए होती है जबकि पुरुष को गवाह के रूप में नहीं माना जाता। जैसे स्त्रियों की विशेष समस्याओं के मामले में, अथवा किसी मृतक स्त्री के नहलाने और कफ़नाने आदि में एक स्त्री का गवाह होना आवश्यक है।

अंत में इतना बताना पर्याप्त है कि आर्थिक लेन-देन में स्त्री और पुरुष की गवाही के बीच समानता का अंतर केवल इसलिए नहीं कि इस्लाम में पुरुषों और स्त्रियों के बीच समता नहीं है, इसके विपरीत यह अंतर केवल उनकी प्राकृतिक प्रवृत्तियों के कारण है। और इन्हीं कारणों से इस्लाम ने समाज में पुरूषों और स्त्रियों के लिये विभिन्न दायित्वों को सुनिश्चित किया है।

विरासत

प्रश्नः इस्लामी कानून के अनुसार विरासत की धन-सम्पत्ति में स्त्री का हिस्सा पुरूष की अपेक्षा आधा क्यों है?
उत्तरः पवित्र क़ुरआन में विरासत की चर्चा पवित्र क़ुरआन में धन (चल-अचल सम्पत्ति सहित) के हकष्दार उत्तराधिकारियों के बीच बंटवारे के विषय पर बहुत स्पष्ट और विस्तृत मार्गदर्शन किया गया है। विरासत के सम्बन्ध में मार्गदर्शक नियम निम्न वर्णित पवित्र आयतों में बताए गए हैं |
‘‘तुम पर फ़र्ज़ (अनिवार्य कर्तव्य) किया गया है कि जब तुम में से किसी की मृत्यु का समय आए और अपने पीछे माल छोड़ रहा हो, माता पिता और सगे सम्बंधियों के लिए सामान्य ढंग से वसीयत करे। यह कर्तव्य है मुत्‍तकी लोगों (अल्लाह से डरने वालों) पर।’’ (पवित्र क़ुरआन , सूरह बकष्रह आयत 180)

‘‘तुम में से जो लोग मृत्यु को प्राप्त हों और अपने पीछे पत्नियाँ छोड़ रहे हों, उनको चाहिए कि अपनी पत्नियों के हकष् में वसीयत कर जाएं कि एक साल तक उन्हें नान-व- नफ़कष्ः (रोटी, कपड़ा इत्यादि) दिया जाए और वे घर से निकाली न जाएं। फिर यदि वे स्वयं ही निकल जाएं तो अपनी ज़ात (व्यक्तिगत रुप में) के मामले में सामान्य ढंग से वे जो कुछ भी करें, इसकी कोई ज़िम्मेदारी तुम पर नहीं है। अल्लाह सब पर ग़ालिब (वर्चस्व प्राप्त) सत्ताधारी हकीम (ज्ञानी) और बुद्धिमान है।’’ (सूरह अल बकष्रह, आयत 240)

‘‘पुरुषों के लिए उस माल में हिस्सा है जो माँ-बाप और निकटवर्ती रिश्तेदारों ने छोड़ा हो और औरतों के लिए भी उस माल में हिस्सा है जो माँ-बाप और निकटवर्ती रिश्तेदारों ने छोड़ा हो। चाहे थोड़ा हो या बहुत। और यह हिस्सा (अल्लाह की तरफ़ से) मुकष्र्रर है। और जब बंटवारे के अवसर पर परिवार के लोग यतीम (अनाथ) और मिस्कीन (दरिद्र, दीन-हीन) आएं तो उस माल से उन्हें भी कुछ दो और उनके साथ भलेमानुसों की सी बात करो। लोगों को इस बात का ख़याल करके डरना चाहिए कि यदि वे स्वयं अपने पीछे बेबस संतान छोड़ते तो मारते समय उन्हें अपने बच्चों के हकष् में कैसी कुछ आशंकाएं होतीं, अतः चाहिए कि वे अल्लाह से डरें और सत्यता की बात करें।’’ (सूरह अन्-निसा, आयत 7 से 9)

‘‘हे लोगो जो ईमान लाए हो, तुम्हारे लिए यह हलाल नहीं है कि ज़बरदस्ती औरतों के वारिस बन बैठो, और न यह हलाल है कि उन्हें तंग करके उस मेहर का कुछ हिस्सा उड़ा लेने का प्रयास करो जो तुम उन्हें दे चुके हो। हाँ यदि वह कोई स्पष्ट बदचलनी करें (तो अवश्य तुम्हें तंग करने का हकष् है) उनके साथ भले तरीकष्े से ज़िन्दगी बसर करो। अगर वह तुम्हें नापसन्द हों तो हो सकता है कि एक चीज़ तुम्हें पसन्द न हो मगर अल्लाह ने उसी में बहुत कुछ भलाई रख दी हो।’’ (सूरह अन्-निसा, आयत 19)

‘‘और हमने उस तरके (छोड़ी हुई धन-सम्पत्ति) के हकष्दार मुकष्र्रर कर दिये हैं जो माता-पिता और कष्रीबी रिश्तेदार छोड़ें। अब रहे वे लोग जिनसे तुम्हारी वचनबद्धता हो तो उनका हिस्सा उन्हें दो। निश्चय ही अल्लाह हर वस्तु पर निगहबान है।’’ (सूरह अन्-निसा, आयत 33)

विरासत में निकटतम रिश्तेदारों का विशेष हिस्सा

पवित्र क़ुरआन में तीन आयतें ऐसी हैं जो बड़े सम्पूर्ण ढंग से विरासत में निकटतम सम्बंधियों के हिस्से पर रौशनी डालती हैं:

‘‘तुम्हारी संतान के बारे में अल्लाह तुम्हें निर्देश देता है कि पुरुष का हिस्सा दो स्त्रियों के बराबर है। यदि (मृतक के उत्तराधिकारी) दो से अधिक लड़कियाँ हों तो उन्हें तरके का दो तिहाई दिया जाए और अगर एक ही लड़की उत्तराधिकारी हो तो आधा तरका उसका है। यदि मृतक संतान वाला हो तो उसके माता-पिता में से प्रत्येक को तरके का छठवाँ भाग मिलना चाहिए। यदि वह संतानहीन हो और माता-पिता ही उसके वारिस हों तो माता को तीसरा भाग दिया जाए। और यदि मृतक के भाई-बहन भी हों तो माँ छठे भाग की हकष्दार होगी (यह सब हिस्से उस समय निकाले जाएंगे) जबकि वसीयत जो मृतक ने की हो पूरी कर दी जाए और क़र्ज़ जो उस पर हो अदा कर दिया जाए। तुम नहीं जानते कि तुम्हारे माँ-बाप और तुम्हारी संतान में से कौन लाभ की दृष्टि से तुम्हें अत्याधिक निकटतम है, यह हिस्से अल्लाह ने निधार्रित कर दिये हैं और अल्लाह सारी मस्लेहतों को जानने वाला है। और तुम्हारी पत्नियों ने जो कुछ छोड़ा हो उसका 

आधा तुम्हें मिलेगा। यदि वह संतानहीन हों, अन्यथा संतान होने की स्थिति में तरके का एक चैथाई हिस्सा तुम्हारा है, जबकि वसीयत जो उन्होंने की हो पूरी कर दी जाए और क़र्ज़ जो उन्होंने छोड़ा हो अदा कर दिया जाए। और वह तुम्हारे तरके में से चैथाई की हकष्दार होंगी। यदि तुम संताीहीन हो, अन्यथा संतान होने की स्थिति में उनका हिस्सा आठवाँ होगा। इसके पश्चात कि जो वसीयत तुमने की हो पूरी कर दी जाए और वह क़र्ज़ जो तुमने छोड़ा हो अदा कर दिया जाए। और अगर वह पुरुष अथवा स्त्री (जिसके द्वारा छोड़ी गई धन-सम्पति का वितरण होना है) संतानहीन हो और उसके माता-पिता जीवित न हों परन्तु उसका एक भाई अथवा एक बहन मौजूद हो तो भाई और बहन प्रत्येक को छठा भाग मिलेगा और भाई बहन एक से ज़्यादा हों तो कुछ तरके के एक तिहाई में सभी भागीदार होंगे। जबकि वसीयत जो की गई हो पूरी कर दी जाए और क़र्ज़ जो मृतक ने छोड़ा हो अदा कर दिया जाए। बशर्ते कि वह हानिकारक न हो। यह आदेश है अल्लाह की ओर से और अल्लाह ज्ञानवान, दृष्टिवान एवं विनम्र है।’’ (सूरह अन्-निसा, आयत 11 से 12 )

‘‘ए नबी! लोग तुम से कलालः (वह मृतक जिसका पिता हो न पुत्र) के बारे में में फ़तवा पूछते हैं, कहो अल्लाह तुम्हें फ़तवा देता है। यदि कोई व्यक्ति संतानहीन मर जए और उसकी एक बहन हो तो वह उसके तरके में से आधा पाएगी और यदि बहन संतानहीन मरे तो भाई उसका उत्तराधिकारी होगा। यदि मृतक की उत्तराधिकारी दो बहनें हों तो वे तरके में दो तिहाई की हक़दार होंगी और अगर कई बहन भाई हों तो स्त्रियों का इकहरा और पुरुषों का दोहरा हिस्सा होगा तुम्हारे लिये अल्लाह आदेशों की व्याख्या करता है ताकि तुम भटकते न फिरो और अल्लाह हर चीज़ का ज्ञान रखता है।’’ (सूरह अन्-निसा, आयत 176)

कुछ अवसरों पर तरके में स्त्री का हिस्सा अपने समकक्ष पुरुष से अधिक होता है
अधिकांक्ष परिस्थतियों में एक स्त्री को विरासत में पुरुष की अपेक्षा आधा भाग मिलता है। किन्तु हमेशा ऐसा नहीं होता। यदि मृतक कोई सगा बुजष्ुर्ग (माता-पिता इत्यादि अथवा सगे उत्ताराधिकारी पुत्र, पुत्री आदि) न हों परन्तु उसके ऐसे सौतेले भाई-बहन हों, माता की ओर से सगे और पिता की ओर से सौतेले हों तो ऐसे दो बहन-भाई में से प्रत्येक को तरके का छठा भाग मिलेगा।

यदि मृतक के बच्चें न हों तो उसके माँ-बाप अर्थात माँ और बाप में से प्रत्येक को तरके का छठा भाग मिलेगा। कुछ स्थितियों में स्त्री को तरके में पुरुष से दोगुना हिस्सा मिलता है। यदि मृतक कोई स्त्री हो जिससे बच्चे न हों और उसका कोई भाई बहन भी न हो जबकि उसके निकटतम सम्बंधियों में उसका पति, माँ और बाप रह गए हों (ऐसी स्थिति में) उस स्त्री के पति को स्त्री के तरके में आधा भाग मिलेगा) माता को एक तिहाई, जबकि पिता को शेष का छठा भाग मिलेगा। देखिए कि इस मामले में स्त्री की माता का हिस्सा उसके पिता से दोगुना होगा।
तरके में स्त्री का सामान्य हिस्सा अपने 

समकक्ष पुरुष से आधा होता है

एक सामान्य नियम के रूप में यह सच है कि अधिकांश मामलों में स्त्री का तरके में हिस्सा पुरुष से आधा होता है, जैसेः

1. विरासत में पुत्री का हिस्सा पुत्र से आधा होता है।

2. यदि मृतक की संतान हो तो पत्नी को आठवाँ और पति को चैथाई हिस्सा मिलेगा।

3. यदि मृतक संतानहीन हो तो पत्नी को चैथाई और पति को आधा हिस्सा मिलेगा।

4. यदि मृतक का कोई (सगा) बुजष्ुर्ग अथवा उत्तराधिकारी न हो तो उसकी बहन को (उसके) भाई के मुकषबले में आधा हिस्सा मिलेगा।

पति को विरासत में दोगुना हिस्सा इसलिए मिलता है कि वह परिवार के भरण पोषण का ज़िम्मेदार है

इस्लाम में स्त्री पर जीवनोपार्जन की कोई ज़िम्मेदारी नहीं है। जबकि परिवार की आर्थिक आवश्यकताओं की पूर्ती का दायित्व पुरुष पर डाला गया है। विवाह से पूर्व कन्या के रहने सहने, आवागमन, भोजन वस्त्र तथा समस्त आर्थिक आवश्यकताओं का पूरा करना उसके पिता अथवा भाई (या भाईयों) का कर्तव्य है। विवाहोपरांत स्त्री की यह समस्त आवश्यकताएं पूरी करने का दायित्व उसके पति अथवा पुत्र (पुत्रों) पर लागू होता है। अपने परिवार की समस्त आर्थिक आवश्यकताओं की पूर्ति के लिए इस्लाम ने पूरी तरह पुरुष को ज़िम्मेदार ठहराया है। इस दायित्व के निर्वाह के कारण से इस्लाम में विरासत में पुरुष का हिस्सा स्त्री से दोगुना निश्चित किया गया है। उदाहरणतः यदि कोई पुरुष तरके में डेढ़ लाख रुपए छोड़ता है और उसके एक बेटी और एक बेटा है तो उसमें से 50 हज़ार बेटी को और एक लाख रुपए बेटे को मिलेंगे।
देखने में यह हिस्सा ज़्यादा लगता है परन्तु बेटे पर घर-परिवार की ज़िम्मेदारी भी है जिन्हें पूरा करने के लिए (स्वाभाविक रूप से) एक लाख में से 80 हज़ार रूपए ख़र्च करने पड़ सकते हैं। अर्थात विरासत में उसका हिस्सा वास्तव में 20 हज़ार के लगभग ही रहेगा। दूसरी ओर यदि लड़की को 50 हज़ार रूपए मिले हैं लेकिन उसपर किसी प्रकार की ज़िम्मेदारी नहीं है अतः वह समस्त राशि उसके पास बची रहेेगी। आपके विचार में क्या चीज़ बेहतर है। तरके में एक लाख लेकर 80 हज़ार ख़र्च कर देना या 50 हज़ार लेकर पूरी राशि बचा लेना?

आख़िरत, मृत्योपरांत जीवन

प्रश्नः आप आख़िरत अथवा मृत्योपरांत जीवन की सत्यता कैसे सिद्ध करेंगे?
उत्तरः आख़िरत पर विश्वास का आधार अंधी आस्था नहीं है। बहुत से लोग इस बात पर हैरान होते हैं कि एक ऐसा व्यक्ति जो बौद्धिक और वैज्ञानिक प्रवृत्ति का स्वामी हो, वह किस प्रकार मृत्यु के उपरांत जीवन पर विश्वास धारण कर सकता है? लोग यह विचार करते हैं कि आख़िरत पर किसी का विश्वास अंधी आस्था पर स्थापित होता है। परन्तु आख़िरत पर मेरा विश्वास बौद्धिक तर्क के आधार पर है।

आख़िरत एक बौद्धिक आस्था

पवित्र क़ुरआन में एक हज़ार से अधिक आयतें ऐसी हैं जिनमें वैज्ञानिक तथ्यों का वर्णन किया गया है। (इसके लिए मेरी पुस्तक ‘‘क़ुरआन और आधुनिक विज्ञान, समन्वय अथवा विरोध’’ देखें) विगत शताब्दियों के दौरान पवित्र क़ुरआन मे वर्णित 80 प्रतिशत तथ्य 100 प्रतिशत सही सिद्ध हो चुके हैं। शेष 20 प्रतिशत तथ्यों के विषय में विज्ञान ने कोई स्पष्ट निष्कर्ष नहीं घोषित किया है क्योंकि विज्ञान अभी तक इतनी उन्नति नहीं कर सका है कि पवित्र क़ुरआन में वर्णित शेष तथ्यों को सही अथवा ग़लत सिद्ध कर सके। इस सीमित ज्ञान के साथ जो हमारे पास है, हम पूरे विश्वास के साथ कदापि नहीं कह सकते कि इस 20 प्रतिशत का भी केवल एक प्रतिशत भाग अथवा कोई एक आयत ही ग़लत है। अतः जब पवित्र क़ुरआन का 80 प्रतिशत भाग (बौद्धिक आधार पर) शत प्रतिशत सही सिद्ध हो चुका है और शेष 20 प्रतिशत ग़लत सिद्ध नहीं किया जा सका तो विवेक यही कहता है कि शेष 20 प्रतिशत भाग भी सही है।

आख़िरत का अस्तित्व जो पवित्र क़ुरआन ने बयान किया है उसी 20 प्रतिशत समझ में न आने वाले भाग में शामिल है जो बौद्धिक रूप से सही है।
शांति और मानवीय मूल्यों की कल्पना, आख़िरत के विश्वास के बिना व्यर्थ है
डकैती अच्छा काम है या बुरा? इस प्रश्न के उत्तर में कोई भी नार्मल और स्वस्थ बुद्धि वाला व्यक्ति यही कहेगा कि यह बुरा काम है। किन्तु इस से भी महत्वपूर्ण प्रश्न यह है कि कोई ऐसा व्यक्ति जो आख़िरत पर विश्वास न रखता हो वह किसी शक्तिशाली और प्रभावशाली पहुंच रखने वाले व्यक्ति को कैसे क़ाइल करेगा कि डाके डालना एक बुराई, एक पाप है?

यदि कोई मेरे सामने इस बात के पक्ष में एक बौद्धिक तर्क प्रस्तुत कर दे (जो मेरे लिए भी समान रूप से स्वीकार्य हो) कि डाका डालना बुरा है तो मैं तुरन्त यह काम छोड़ दूंगा। इसके जवाब में लोग आम तौर से निम्नलिखित तर्क देते हैं।

(क) लुटने वाले व्यक्ति को कठिनाईयों का सामना होगा
कुछ लोग यह तर्क दे सकते हैं कि लुटने वाले व्यक्ति को कठिनाईयों का सामना होगा। निश्चय ही, मैं इस बात पर सहमत होऊंगा कि लुटनेवाले के लिए डाकाज़नी का काम बहुत बुरा है। परन्तु मेरे लिए तो यह अच्छा है। यदि मैं 20 हज़ार डालर की डकैती मारूं तो किसी पाँच तारा होटल में मज़े से खाना खा सकता हूँ।
(ख) कोई अन्य आप को भी लूट सकता है
कुछ लोग यह कह सकते हैं कि किसी दिन कोई अन्य डाकू आप को भी लूट सकता है। परन्तु मैं तो बड़ी ऊँची पहुंच वाला प्रभावशाली अपराधी हूँ, और मेरे सैकड़ों अंगरक्षक हैं तो भला कोई मुझे कैसे लूट सकता है? अर्थात मैं तो किसी को भी लूट सकता हूँ परन्तु मुझे कोई नहीं लूट सकता। डकैती किसी साधारण व्यक्ति के लिये ख़तरनाक पेशा हो सकता है पर मुझ जैसे शक्तिशाली और प्रभावशाली व्यक्ति के लिए नहीं।

(ग) आपको पुलिस गिरफ़्तार कर सकती है
एक तर्क यह भी सामने आ सकता है कि किसी न किसी दिन पुलिस आपको गिरफ़्तार कर लेगी। अरे भई! पुलिस तो मुझे पकड़ ही नहीं सकती, पुलिस के छोटे से बड़े अधिकारियों और ऊपर मंत्रियों तक मेरा नमक खाने वाले हैं। हाँ, यह मैं मानता हूँ कि यदि कोई साधारण व्यक्ति डाका डाले तो वह गिरफ़्तार कर लिया जाएगा और डकैती उसके लिये बुरी सिद्ध होगी, परन्तु मैं तो आसाधारण रूप से प्रभावशाली और ताकष्तवर अपराधी हूँ, मुझे कोई बौद्धिक तर्क दीजिए कि यह कृत्य बुरा है, मैं डाके मारना छोड़ दूंगा।

(घ) यह बिना परिश्रम की कमाई है
यह एक तर्क दिया जा सकता है कि यह बिना परिश्रम अथवा कम परिश्रम से कमाई गई आमदनी है जिसकी प्राप्ति हेतु कोई अधिक मेहनत नहीं की गई है। मैं मानता हूँ कि डाका मारने में कुछ खास परिश्रम किये बिना अच्छी खासी रकष्म हाथ लग जाती है। और यही मेरे डाका मारने का बड़ा कारण भी है। यदि किसी के सामने अधिक धन कमाने का सहज और सुविधाजनक रास्ता हो तथा वह रास्ता भी हो जिससे धन कमाने में उसे बहुत ज़्यादा परिश्रम करना पड़े तो एक बुद्धिमान व्यक्ति स्वाभाविक रूप से सरल रास्ते को ही अपनाएगा।

(ङ) यह मानवता के विरूद्ध है
कुछ लोग यह भी कह सकते हैं कि डाके मारना अमानवीय कृत्य है और यह कि एक व्यक्ति को दूसरे मनुष्यों के बारे में सोचना चाहिए। इस बात को नकारते हुए मैं यह प्रश्न करूंगा कि ‘‘मानवता कहलाने वाला यह कानून किसने लिखा है, मैं इस का पालन किस ख़ुशी में करूँ?’’

यह कानून किसी भावुक और संवेदनशील व्यक्ति के लिए तो ठीक हो सकता है किन्तु मैं बुद्धिमान व्यक्ति हूँ, मुझे दूसरे लोगों की चिंता करने में कोई लाभ दिखाई नहीं देता।

(च) यह स्वार्थी कृत्य है
कुछ लोग डाकाज़नी को स्वार्थी कृत्य कह सकते हैं, यह बिल्कुल सच है कि डाके मारना स्वार्थी कृत्य है किन्तु मैं स्वार्थी क्यों न बनूँ। इसी से तो मुझे जीवन का आनन्द उठाने में मदद मिलती है।

डाकाज़नी को बुरा काम सिद्ध करने के लिए 
कोई बौद्धिक तर्क नहीं
अतः डाका मारने को बुरा काम सिद्ध करने हेतु दिये गए समस्त तर्क व्यर्थ रहते हैं। इस प्रकार के तर्कों से एक साधारण कमज़ोर व्यक्ति को तो प्रभावित किया जा सकता है। किन्तु मुझ जैसे शक्तिशाली और असरदार व्यक्ति को नहीं। इनमें से किसी एक तर्क का बचाव भी बुद्धि और विवेक के बल पर नहीं किया जा सकता, अतः इसमें कोई हैरानी की बात नहीं कि संसार में बहुत अपराधी प्रवृति के लोग पाए जाते हैं। इसी प्रकार धोखाधड़ी और बलात्कार जैसे अपराध मुझ जैसे किसी व्यक्ति के लिए अच्छे होने का औचित्य प्राप्त कर सकते हैं। और कोई बौद्धिक तर्क मुझ से इनके बुरे होने की बात नहीं मनवा सकता। एक मुसलमान किसी भी शक्तिशाली अपराधी को लज्जित होने पर विवश कर सकता है
चलिए, अब हम स्थान बदल लेते हैं। मान लीजिए कि आप दुनिया के शक्तिशाली अपराधी हैं जिसका प्रभाव पुलिस से लेकर सरकार के बड़े- बड़े मंत्रियों आदि पर भरपूर है। आपके पास अपने गिरोह के बदमाशों की पूरी सेना है। मैं एक मुसलमान हूँ जो आपको समझाने का प्रयत्न कर रहा है कि बलात्कार, लूटमार और धोखाधड़ी इत्यादि बुरे काम हैं। यदि मैं वैसे ही तर्क (जो पहले दिये जा चुके हैं) अपराधों को बुरा सिद्ध करने के लिए दूँ तो अपराधी भी वही जवाब देगा जो उसने पहले दिये थे।
मैं मानता हूँ कि अपराधी चतुर बुद्धि का व्यक्ति हैं, और उसके समस्त तर्क उसी समय सटीक होंगे जब वह संसार का बलशाली अपराधी हो।
प्रत्येक मनुष्य न्याय चाहता है

प्रत्येक मनुष्य की यह कामना होती है कि उसे न्याय मिले। यहाँ तक कि यदि वह दूसरों के लिए न्याय का इच्छुक न भी हो तो भी वह अपने लिए न्याय चाहता है। कुछ लोग शक्ति और अपने असर-रसूख़ के नशे में इतने उन्मत्त होते हैं कि दूसरे लोगों के लिए कठिनाईयाँ और विपत्तियाँ खड़ी करते रहते हैं परन्तु यही लोग उस समय कड़ी आपत्ति करते हैं जब स्वयं उनके साथ अन्याय हो। दूसरों की ओर से असंवेदनशील और भावहीन होने का कारण यह है कि वे अपनी शक्ति की पूजा करते हैं और यह सोचते हैं कि उनकी शक्ति ही उन्हें दूसरों के साथ अन्याय करने के योग्य बनाती है और दूसरों को उनके विरुद्ध अन्याय करने से रोकने का साधन है।
अल्लाह तआला सबसे शक्तिशाली और न्याय करने वाला है एक मुसलमान की हैसियत से मैं अपराधी को सबसे पहले अल्लाह के अस्तित्व को मानने पर बाध्य करूंगा, (इस बारे में तर्क अलग हैं) अल्लाह आपसे कहीं अधिक ताकष्तवर है और साथ ही साथ वह अत्यंत न्यायप्रिय भी है। पवित्र क़ुरआन में कहा गया हैः
‘‘अल्लाह किसी पर ज़र्रा बराबर भी अत्चायार नहीं करता। यदि कोई एक नेकी करे तो अल्लाह उसको दोगुना करता है और अपनी ओर से बड़ा प्रतिफल प्रदान करता है।’’ (पवित्र क़ुरआन , 4ः40)

अल्लाह मुझे दण्ड क्यों नहीं देता?

और बुद्धिमान तथा वैज्ञानिक प्रवृत्ति वाला व्यक्ति होने के नाते जब उसके समक्ष पवित्र क़ुरआन से तर्क प्रस्तुत किये जाते हैं तो वह उन्हें स्वीकार करके अल्लाह तआला के अस्तित्व को मान लेता है। वह प्रश्न कर सकता है कि जब अल्लाह तआला सबसे ताकष्तवर और सबसे अधिक न्याय करने वाला है तो मुझे दण्ड क्यों नहीं मिलता? अन्याय करने वाले को दण्ड मिलना चाहिए
प्रत्येक वह व्यक्ति, जिसके साथ अन्याय हुआ हो, निश्चय ही यह चाहेगा कि अन्यायी को उसके धन, शक्ति और सामाजिक रुतबे का ध्यान किये बिना दण्ड दिया जाना चाहिए। प्रत्येक सामान्य व्यक्ति यह चाहेगा कि डाकू और बदकार को सबक सिखाया जाए। यद्यपि बहुतेरे अपराधियों को दण्ड मिलता है किन्तु फिर भी उनकी बड़ी तादाद कानून से बच जाने में सफल रहती है।। ये लोग बड़ा आन्दमय एवं विलासितापूर्ण जीवन बिताते हैं और अधिकांश आनन्दपूर्वक रहते हैं। यदि किसी शक्तिशाली और असरदार व्यक्ति के साथ उससे अधिक शक्तिशाली व्यक्ति अन्याय करे तो भी वह चाहेगा कि उससे अधिक शक्तिशाली और असरदार व्यक्ति को उसके अन्याय का दण्डा दिया जाए।

यह जीवन आख़िरत का परीक्षा स्थल है

दुनिया की यह ज़िन्दगी आख़िरत के लिए परीक्षा स्थल है। पवित्र क़ुरआन का फ़रमान हैः
‘‘जिसने मृत्यु और जीवन का अविष्कार किया ताकि तुम लोगों को आज़मा कर देखे कि तुम में से कौन सद्कर्म करने वाला है, और वह ज़बदस्त भी है और दरगुज़र (क्षमा) करने वाला भी।’’ (पवित्र क़ुरआन 67ः2)

कियामत के दिन पूर्ण और निश्चित न्याय होगा

पवित्र क़ुरआन में कहा गया हैः

‘‘अंततः प्रत्येक व्यक्ति को मृत्यु का स्वाद चखना है। और तुम जब अपने पूरे-पूरे अज्र (प्रतिफल) पाने वाले हो, सफल वास्तव में वह है जो दोज़ख़ की आग से बच जाए और जन्नत में दाख़िल कर दिया जाए, रही यह दुनिया तो यह एक प्रत्यक्ष धोखा (माया) है।’’ (पवित्र क़ुरआन, 3ः185)

पूर्ण न्याय किष्यामत के दिन किया जाएगा। मरने के बाद हर व्यक्ति को हिसाब के दिन (कियामत के दिन) एक बार फिर दूसरे तमाम मनुष्यों के साथ ज़िन्दा किया जाएगा। यह संभव है कि एक व्यक्ति अपनी सज़ा का एक हिस्सा दुनिया ही में भुगत ले, किन्तु दण्ड और पुरुस्कार का पूरा फ़ैसला आख़िरत में ही किया जाएगा। संभव है अल्लाह तआला किसी अपराधी को इस दुनिया में सज़ा न दे लेकिन किष्यामत के दिन उसे अपने एक-एक कृत्य का हिसाब चुकाना पड़ेगा। और वह आख़िरत अर्थात मृत्योपरांत जीवन में अपने एक-एक अपराध की सज़ा पाएगा।
मानवीय कानून हिटलर को क्या सज़ा दे सकता है?

महायुद्ध में हिटलर ने लगभग 60 लाख यहूदियों को जीवित आग में जलवाया था। मान लें कि पुलिस उसे गिरफ़्तार भी कर लेती तो कानून के अनुसार उसे अधिक से अधि क्या सज़ा दी जाती? बहुत से बहुत यह होता कि उसे किसी गैस चैम्बर में डालकर मार दिया जाता, किन्तु यह तो केवल एक यहूदी की हत्या का दण्ड होता, शेष 59 लाख, 99 हज़ार, 999 यहूदियों की हत्या का दण्ड उसे किस प्रकार दिया जा सकता था? उसे एक बार ही (स्वाभाविक रुप से) मृत्युदण्ड दिया जा सकता था।
अल्लाह के अधिकार में है कि वह हिटलर को जहन्नम की आग में 60 लाख से अधिक बार जला दे

पवित्र क़ुरआन में अल्लाह तआला फ़रमाता हैः
‘‘जिन लोगों ने हमारी आयतों को मानने से इंकार कर दिया है उन्हें हम निश्चिय ही आग में फेंकेंगे और जब उनके शरीर की खाल गल जाएगी तो उसकी जगह दूसरी खाल पैदा कर देंगे ताकि वह ख़ूब अज़ाब (यातना) का मज़ा चखें, अल्लाह बड़ी क्षमता रखता है और अपने फ़ैसलों के क्रियानवयन की हिकमत ख़ूब जानता है।’’ (पवित्र क़ुरआन , 4ः56)
अर्थात अल्लाह चाहे तो हिटलर को जहन्नम की आग में केवल 60 लाख बार नहीं बल्कि असंख्य बार जला सकता है। आख़िरत की परिकल्पना के बिना मानवीय मूल्यों और अच्छाई बुराई की कोई कल्पना नहीं

यह स्पष्ट है कि किसी व्यक्ति को आख़िरत की कल्पना अथवा मृत्यु के पश्चात जीवन के विश्वास पर कषयल किये बिना उसे मानवीय मूल्यों और अच्छे-बुरे कर्मों की कल्पना पर कषयल करना भी संभव नहीं। विशेष रूप से जब मामला शक्तिशाली और बड़े अधिकार रखने वालों का हो जो अन्याय में लिप्त हों।

इस्लाम ही का अनुकरण क्यों
प्रश्नः सभी धर्म अपने अनुयायियों को अच्छे कामों की शिक्षा देते हैं तो फिर किसी व्यक्ति को इस्लाम का ही अनुकरण क्यों करना चाहिए? क्या वह किसी अन्य धर्म का अनुकरण नहीं कर सकता?
उत्तरः इस्लाम और अन्य धर्मों में विशेष अंतरयह ठीक है कि सभी धर्म मानवता को सच्चाई और सद्कर्म की शिक्षा देते हें और बुराई से रोकते हैं किन्तु इस्लाम इससे भी आगे तक जाता है। यह नेकी और सत्य की प्राप्ति और व्यक्तिगत एवं सामुहिक जीवन से बुराईयों को दूर करने की दिशा में वास्तविक मार्गदर्शक भी है। इस्लाम न केवल मानव प्रकृति को महत्व देता है वरन् मानव जगत की पेचीदगियों की ओर भी सजग रहता है। इस्लाम एक ऐसा निर्देश है जो अल्लाह तआला की ओर से आया है, यही कारण है कि इस्लाम को ‘‘दीन-ए-फ़ितरत’’ अर्थात प्राकृतिक धर्मभी कहा जाता है।
उदाहरण
इस्लाम केवल चोरी-चकारी, डाकाज़नी को रोकने का ही आदेश नहीं देता बल्कि इसे समूल समाप्त करने के व्यावहारिक तरीके भी स्पष्ट करता है।
(क) इस्लाम चोरी, डाका इत्यादि अपराध समाप्त करने के व्यावहारिक तरीके सपष्ट करता है सभी प्रमुख धर्मों में चोरी चकारी और लूट आदि को बुरा बताया जाता है। इस्लाम भी यही शिक्षा देता है तो फिर अन्य धर्मों और इस्लाम की शिक्षा में क्या अंतर हुआ? अंतर इस तथ्य में निहित है कि इस्लाम चोरी, डाके आदि अपराधों की केवल निन्दा करने पर ही सीमित नहीं है, वह एक ऐसा मार्ग भी प्रशस्त करता है जिस पर चलकर ऐसा समाज विकसित किया जाए, जिस में लोग ऐसे अपराध करें ही नहीं।

(ख) इस्लाम में ज़कात का प्रावधान है
इस्लाम ने ज़कात देने की एक विस्तृत व्यवस्था स्थापित की है। इस्लामी कानून के अनुसार प्रत्येक वह व्यक्ति जिसके पास बचत की मालियत (निसाब) अर्थात् 85 ग्राम सोना अथवा इतने मूल्य की सम्पत्ति के बराबर अथवा अधिक हो, वह साहिब-ए-निसाब है, उसे प्रतिवर्ष अपनी बचत का ढाई प्रतिशत भाग ग़रीबों को देना चाहिए। यदि संसार का प्रत्येक सम्पन्न व्यक्ति ईमानदारी से ज़कात अदा करने लगे तो संसार से दरिद्रता समाप्त हो जाएगी और कोई भी मनुष्य भूखा नहीं मरेगा।

(ग) चोर, डकैत को हाथ काटने की सज़ा
इस्लाम का स्पष्ट कानून है कि यदि किसी पर चोरी या डाके का अपराध सिद्ध हो तो उसके हाथ काट दिया जाएंगे। पवित्र क़ुरआन में आदेश हैः
 ‘‘और चारे, चाहे स्त्री हो अथवा पुरुष, दोनों के हाथ काट दो, यह उनकी कमाई का बदला है, और अल्लाह की तरफ़ से शिक्षाप्रद सज़ा, अल्लाह की क़ुदरत सब पर विजयी है और वह ज्ञानवान एवं दृष्टा है।’’ (पवित्र क़ुरआन , सूरह अल-मायदा, आयत 38)
ग़ैर मुस्लिम कहते हैं ‘‘इक्कीसवीं शताब्दी में हाथ काटने का दण्ड? इस्लाम तो निर्दयता और क्रूरता का धर्म है।

(घ) परिणाम तभी मिलते हैं जब इस्लामी शरीअत लागू की जाए
अमरीका को विश्व का सबसे उन्नत देश कहा जाता है, दुर्भाग्य से यही देश है जहाँ चोरी और डकैती जैसे अपराधों का अनुपात विश्व में सबसे अधिक है। अब ज़रा थोड़ी देर को मान लें कि अमरीका में इस्लामी शरीअत कानून लागू हो जाता है अर्थात प्रत्येक धनाढ्य व्यक्ति जो साहिब-ए-निसाब हो पाबन्दी से अपने धन की ज़कात अदा करे (चाँद के वर्ष के हिसाब से) और चोरी-डकैती का अपराध सिद्ध हो जाने के पश्चात अपराधी के हाथ काट दिये जाएं, ऐसी अवस्था में क्या अमरीका में
अपराधों की दर बढ़ेगी या उसमें कमी आएगी या कोई फ़र्क नहीं पड़ेगा? स्वाभाविक सी बात है कि अपराध दर में कमी आएगी। यह भी होगा कि ऐसे कड़े कानून के होने से वे लोग भी अपराध करने से डरेंगे जो अपराधी प्रवृति के हों।
मैं यह सवीकार करता हूँ कि आज विश्व में चोरी-डकैती की घटनाएं इतनी अधिक होती हैं कि यदि तमाम चारों के हाथ काट दिये जाएं तो ऐसे लाखों लोग होंगे जिनके हाथ कटेंगे। परन्तु ध्यान देने योग्य यह तथ्य है कि जिस समय आप यह कानून लागू करेंगे, उसके साथ ही चोरी और डकैटी की दर में कमी आ जाएगी। ऐसे अपराध करने वाला यह कृत्य करने से पहले कई बार सोचेगा क्योंकि उसे अपने हाथ गँवा देने का भय भी होगा। केवल सज़ा की कल्पना मात्र से चोर डाकू हतोत्साहित होंगे और बहुत कम अपराधी अपराध का साहस जुटा पाएंगे। अतः केवल कुछ लोगों के हाथ काटे जाने से लाखों करोड़ो लोग चोरी-डकैती से भयमुक्त होकर शांति का जीवन जी सकेंगे। इस प्रकार सिद्ध हुआ कि इस्लामी शरीअत व्यावहारिक है और उससे सकारात्मक परिणाम प्राप्त हो सकते हैं।
उदाहरण
इस्लाम में महिलाओं का अपमान और बलात्कार हराम है। इस्लाम में स्त्रियों के लिये हिजाब (पर्दे) का आदेश है और व्यभिचार (अवैध शारीरिक सम्बन्ध) का अपराध सिद्ध हो जाने पर व्याभिचारी के लिए मृत्युदण्ड का प्रावधान है
(क) इस्लाम में महिलाओं के साथ ज़ोर ज़बरदस्ती और बलात्कार को रोकने का व्यावहारिक तरीकष स्पष्ट किया गया है

सभी प्रमुख धर्मों में स्त्री के साथ बलात्कार और ज़ोर-ज़बरदस्ती को अत्यंत घिनौना अपराध माना गया है। इस्लाम में भी ऐसा ही है। तो फिर इस्लाम और अन्य धर्मों की शिक्षा में क्या अंतर है?

यह अंतर इस यर्थाथ में निहित है कि इस्लाम केवल नारी के सम्मान की प्ररेणा भर को पर्याप्त नहीं समझता, इस्लाम ज़ोर ज़बरदस्ती और बलात्कार को अत्यंत घृणित अपराध कष्रार देकर ही संतुष्ट नहीं हो जाता बल्कि वह इसके साथ ही प्रत्यक्ष मार्गदर्शन भी उपलब्ध कराता है कि समाज से इन अपराधों को कैसे मिटाया जाए।

(ख) पुरुषों के लिए हिजाब

इस्लाम में हिजाब की व्यवस्था है। पवित्र क़ुरआन में पहले पुरुषों के लिए हिजाब की चर्चा की गई है उसके बाद स्त्रियों के हिजाब पर बात की गई है। पुरुषों के लिए हिजाब का निम्नलिखित आयत में आदेश दिया गया हैः
‘‘हे नबी! (सल्लॉ) मोमिन पुरुषों से कहो कि अपनी नज़रें बचाकर रखें और अपनी शर्मगाहों (गुप्तांगों) की हिफ़ाज़त करें। यह उनके लिए पाकीज़ा तरीकष है। जो कुछ वे करते हैं अल्लाह उस से बाख़बर रहता है। (पवित्र क़ुरआन , 24ः30)

जिस क्षण किसी पुरुष की दृष्टि (नामहरम) स्त्री पर पड़े और कोई विकार या बुरा विचार मन में उत्पन्न हो तो उसे तुरन्त नज़र नीची कर लेनी चाहिए।

(ग) स्त्रियों के लिए हिजाब

स्त्रियों के लिए हिजाब की चर्चा निम्नलिखित आयत में की गई है।
‘‘हे नबी! (सल्लॉ) मोमिन औरतों से कह दो कि अपनी नज़रें नीची रखें और अपनी शर्मगाहों की हिफ़ाज़त करें, अपना बनाव सिंघार न दिखाएं, केवल उसके जो ज़ाहिर हो जाए और अपने सीनों पर अपनी ओढ़नियों का आँचल डाले रहें।’’ (पवित्र क़ुरआन , 24ः31)
स्त्रियों के लिए हिजाब की व्याख्या यह है कि उनका शरीर पूरी तरह ढका होना चाहिए। केवल चेहरा और कलाईयों तक। हाथ वह भाग हैं जो ज़ाहिर किए जा सकते हैं फिर भी यदि कोई महिला उन्हें भी छिपाना चाहे तो वह शरीर के इन भागों को भी छिपा सकती है परन्त कुछ उलेमा-ए-दीन का आग्रह है कि चेहरा भी ढका होना चाहिए।

(घ) छेड़छाड़ से सुरक्षा, हिजाब

अल्लाह तआला ने हिजाब का आदेश क्यों दिया है? इसका उत्तर पवित्र क़ुरआन ने सूरह अहज़ाब की इस आयत में उपलब्ध कराया हैः
‘‘हे नबी! (सल्लॉ) अपनी पत्नियों और पुत्रियों और ईमान वालों की स्त्रियों से कह दो कि अपने ऊपर अपनी चादरों के पल्लू लटका लिया करें। यह उचित तरीकष है ताकि वह पहचान ली जाएं और सताई न जाएं। अल्लाह क्षमा करने वाला और दयावान है।’’ (पवित्र क़ुरआन , सूरह अहज़ाब, आयत 59)

पवित्र क़ुरआन कहता है कि स्त्रियों को हिजाब करना इसलिए ज़रूरी है ताकि वे
सम्मानपूर्वक पहचानी जा सकें और यह कि हिजाब उन्हें छेड़-छाड़ से भी बचाता है।

(ङ) जुड़वाँ बहनों का उदाहरण

जैसा कि हम पीछे भी बयान कर चुके हैं, मान लीजिए कि दो जुड़वाँ बहनें हैं जो समान रूप से सुन्दर भी हैं। एक दिन वे दोनों एक साथ घर से निकलती हैं। एक बहन ने इस्लामी हिजाब कर रक्खा है अर्थात उसका पूरा शरीर ढंका हुआ है। इसके विपरीत दूसरी बहन ने पश्चिमी ढंग का मिनी स्कर्ट पहना हुआ है अर्थात उसके शरीर का पर्याप्त भाग स्पष्ट दिखाई दे रहा है। गली के नुक्कड़ पर एक लफ़ंगा बैठा है जो इस प्रतीक्षा में है कि कोई लड़की वहाँ से गुज़रे अैर वह उसके साथ छेड़छाड़ और शरारत करे। सवाल यह है कि जब वे दोनों बहनें वहाँ पहुचेगी तो वह लफ़ंगा किसको पहले छेड़ेगा। इस्लामी हिजाब वाली को अथवा मिनी स्कर्ट वाली को? इस प्रकार के परिधान जो शरीर को छिपाने की अपेक्षा अधिक प्रकट करें एक प्रकार से छेड़-छाड़ का निमंत्रण देते हैं। पवित्र क़ुरआन ने बिल्कुल सही फ़रमाया है कि हिजाब स्त्री को छेड़-छाड़ से बचाता है।

(च) ज़ानी (कुकर्मी) के लिए मृत्युदण्ड

यदि किसी (विवाहित) व्यक्ति के विरुद्ध ज़िना (अवैध शारीरिक सम्बन्ध) का अपराध सिद्ध हो जाए तो इस्लामी शरीअत के अनुसार उसके लिए मृत्युदण्ड है, आज के युग में इतनी कठोर सज़ा देने पर शायद ग़ैर मुस्लिम बुरी तरह भयभीत हो जाएं। बहुत से लोग इस्लाम पर निर्दयता और क्रूरता का आरोप लगाते हैं। मैंने सैंकड़ो ग़ैर मुस्लिम पुरुषों से एक साधारण सा प्रश्न किया। मैंने पूछा कि ख़ुदा न करे, कोई आपकी पत्नी या माँ, बहन के साथ बलात्कार करे और आप को उस अपराधी को सज़ा देने के लिए जज नियुक्त किया जाए और अपराधी आपके सामने लाया जाए तो आप उसे क्या सज़ा देंगे? उन सभी ने इस प्रश्न के उत्तर में कहा कि ‘‘हम उसे मौत की सज़ा देंगे।’’ कुछ लोग तो इससे आगे बढ़कर बोले, ‘‘हम उसको इतनी यातनाएं देंगे कि वह मर जाए।’’ इसका मतलब यह हुआ कि यदि कोई आपकी माँ, बहन या पत्नि के साथ बलात्कार का अपराधी हो तो आप उस कुकर्मी को मार डालना चाहते हैं। परन्तु यदि किसी दूसरे की पत्नी, माँ, बहन की इज़्ज़त लूटी गई तो मौत की सज़ा क्रूर और अमानवीय हो गई। यह दोहरा मानदण्ड क्यों है?

(छ) अमरीका में बलात्कार की दर सब देशों से अधिक है
अब मैं एक बार फिर विश्व के सबसे अधिक आधुनिक देश अमरीका का उदाहरण देना चाहूँगा। एफ़.बी.आई की रिपोर्ट के अनुसार 1995 के दौरान अमरीका में 10,255 (एक लाख दो सौ पचपन) बलात्कार के मामले दर्ज हुए। रिपोर्ट में यह भी कहा गया है कि बलात्कार की समस्त घटनाओं में से केवल 16 प्रतिशत की ही रिपोर्ट्स दर्ज कराई गईं। अतः 1995 में अमरीका में बलात्कार की घटनाओं की सही संख्या जानने के लिए दर्ज मामलों की संख्या को 6.25 से गुणा करना होगा। इस प्रकार पता चलता है कि बलात्कार की वास्तविक संख्या 640,968 (छः लाख, चालीस हज़ार, नौ सौ अड़सठ) है।
एक अन्य रिपोर्ट में बताया गया कि अमरीका में प्रतिदिन बलात्कार की 1900 घटनाएं होती हैं। अमरीकी प्रतिरक्षा विभाग के एक उप संस्थान ‘‘नैशनल क्राइ्रम एण्ड कस्टमाईज़ेशन सर्वे, ब्यूरो आफ़ जस्टिस’’ द्वारा जारी किए गए आँकड़ों के अनुसार केवल 1996 के दौरान अमरीका में दर्ज किये गए बलात्कार के मामलों की तादाद तीन लाख, सात हज़ार थी जबकि यह संख्या वास्तविक घटनाओं की केवल 31 प्रतिशत थी। अर्थात सही संख्या जानने के लिए हमें इस तादाद को 3226 से गुणा करना होगा। गुणान फल से पता चलता है कि 1996 में अमरीका में बलात्कारों की वास्तविक संख्या 990,332 (नौ लाख, नब्बे हज़ार, तीन सौ बत्तीस) थी। अर्थात् उस वर्ष अमरीका में प्रतिदिन 2713 बलात्कार की वारदातें हुईं अर्थात् प्रति 32 सेकेण्ड एक बलात्कार की घटना घटी। कदाचित् अमरीका के बलात्कारी काफ़ी साहसी हो गए हैं। एफ.बी.आई की 1990 वाली रिपोर्ट में तो ये भी बताया गया था कि केवल 10 प्रतिशत बलात्कारी ही गिरफ़्तार हुए। यानी वास्तविक वारदातों के केवल 16 प्रतिशत अपराधी ही कानून के शिकंजे में फंसे। जिनमें से 50 प्रतिशत को मुकदमा चलाए बिना ही छोड़ दिया गया। इसका मतलब यह हुआ कि केवल 8 प्रतिशत बलात्कारियों पर मुकष्दमे चले। दूसरे शब्दों में यही बात इस प्रकार भी कह सकते हैं कि यदि अमरीका में कोई व्यक्ति 125 बार बलात्कार का अपराध करे तो संभावना यही है कि उसे केवल एक बार ही उसको सज़ा मिल पाएगी। बहुत-से अपराधी इसे एक अच्छा ‘‘जुआ’’ समझते हैं।
यही रिपोर्ट बताती है कि मुक़दमे का सामना करने वालों में 50 प्रतिशत अपराधियों को एक वर्ष से कम कारावास की सज़ा सुनाई गई। यद्यपि अमरीकी कानून में बलात्कार के अपराध में 7 वर्ष सश्रम कारावास का प्रावधान है। यह देखा गया है कि अमरीकी जज साहबान पहली बार बलात्कार के आरोप में गिरफ़्तार लोगों के प्रति सहानुभूति की भावना रखते हैं। अतः उन्हें कम सज़ा सुनाते हैं। ज़रा सोचिए! एक अपराधी 125 बार बलात्कार का अपराध करता है और पकड़ा भी जाता है तब भी उसे 50 प्रतिशत संतोष होता है कि उसे एक वर्ष से कम की सज़ा मिलेगी।
(ज) इस्लामी शरीअत कानून लागू कर दिया जाए तो परिणाम प्राप्त
होते हैं

अब मान लीजिए कि अमरीका में इस्लामी शरीअत कानून लागू कर दिया जाता है। जब भी कोई पुरुष किसी नामहरम महिला पर निगाह डालता है और उसके मन में कोई बुरा विचार उत्पन्न होता है तो वह तुरन्त अपनी नज़र नीची कर लेता है। प्रत्ेयक स्त्री इस्लामी कानून के अनुसार हिजाब करती है अर्थात अपना सारा शरीर ढाँपकर रखती है। इसके बाद यदि कोई बलात्कार का अपराध करता है तो उसे मृत्यु दण्ड दिया जाए।

प्रश्न यह है कि यह कानून अमरीका में लागू हो जाने पर बलात्कार की घटनाओं में वृद्धि होगी अथवा कमी आएगी या स्थिति जस की तस रहेगी?
स्वाभाविक रूप से इस प्रश्न का उत्तर होगा कि इस प्रकार का कानून लागू होने से बलात्कार घटेंगे। इस प्रकार इस्लामी शरीअत के लागू होने पर तुरन्त परिणाम प्राप्त होंगे।
मानव समाज की समस्त समस्याओं का व्यावहारिक समाधान इस्लाम में मौजूद है
जीवन बिताने का श्रेष्ठ उपाय यही है कि इस्लामी शिक्षा का अनुपालन किया जाए क्योंकि इस्लाम केवल ईश्वरीय उपदेशों का संग्रह मात्र नहीं है वरन् यह मानव समाज की समस्त समस्याओं का सकारात्मक समाधान प्रस्तुत करता है। इस्लाम व्यक्तिगत तथा सामूहिक दोनों स्तरों पर सकारात्मक ओर व्यावहारिक मार्गदर्शन करता है। इस्लाम विश्व की श्रेष्ठतम जीवन पद्धति है क्योंकि यह एक स्वाभाविक विश्वधर्म है जो किसी विशेष जाति, रंग अथवा क्षेत्र के लोगों तक सीमित नहीं है।

इस्लाम की शिक्षा और मुसलमानों के वास्तविक
प्रश्नः यदि इस्लाम विश्व का श्रेष्ठ धर्म है तो फिर क्या कारण है कि बहुत से मुसलमान बेईमान और विश्वासघाती होते हैं। धोखेबाज़ी, घूसख़ोरी और नशीले पदार्थों के व्यापार जैसे घृणित कामों में लिप्त होते हैं।
उत्तरः संचार माध्यमों ने इस्लाम का चेहरा बिगाड़ दिया है

(क) निसन्देह, इस्लाम ही श्रेष्ठतम धर्म है किन्तु विश्व संचार माध्यम ;डमकपंद्ध पश्चिम के हाथ में है जो इस्लाम से भयभीत है। यह मीडिया ही है जो इस्लाम के विरुद्ध दुराग्रह पूर्ण प्रचार-प्रसार में व्यस्त रहता है। यह संचार माध्यम इस्लाम के विषय में ग़लत जानकारी फैलाते हैं। ग़लत ढंग से इस्लाम का संदर्भ देते हैं। अथवा इस्लामी दृष्टिकोण को उसके वास्तविक अर्थ से अलग करके प्रस्तुत करते हैं।

(ख) जहाँ कहीं कोई बम विस्फोट होता है और जिन लोगों को सर्वप्रथम आरोपित किया जाता है वे मुसलमान ही होते हैं। यही बात अख़बारी सुर्ख़ियों में आ जाती है परन्तु यदि बाद में उस घटना का अपराधी कोई ग़ैर मुस्लिम सिद्ध हो जाए तो उस बात को महत्वहीन ख़बर मानकर टाल दिया जाता है।

(ग) यदि कोई 50 वर्षीय मुसलमान पुरुष एक 15 वर्षीय युवती से उसकी सहमति से विवाह कर ले तो यह ख़बर अख़बार के पहले पृष्ठ का समाचार बन जाती है। परन्तु यदि कोई 50 वर्षिय ग़ैर मुस्लिम पुरुष छः वर्षीया बालिका से बलत्कार करता पकड़ा जाए तो उस ख़बर को अख़बार के अन्दरूनी पेजों में संक्षिप्त ख़बरों में डाल दिया जाता है। अमरीका में प्रतिदिन बलात्कार की लगभग 2,713 घटनाएं होेती हैं परन्तु यह बातें ख़बरों में इसलिए नहीं आतीं कि यह सब अमरीकी समाज का सामान्य चलन ही बन चुका है।

प्रत्येक समाज में काली भेड़ें होती हैं

मैं कुछ ऐसे मुसलमानों से परिचित हूँ जो बेईमान हैं, धोखेबाज़ हैं, भरोसे के योग्य नहीं हैं। परन्तु मीडिया इस प्रकार मुस्लिम समाज का चित्रण करता है जैसे केवल मुसलमान ही बुराईयों में लिप्त हैं। काली भेड़ें अर्थात् कुकर्मी प्रत्येक समाज में होते हैं। मैं ऐसे लोगों को भी जानता हूँ जो स्वयं को मुसलमान कहते हैं और खुलेआम अथवा छिपकर शराब भी पी लेते हैं।

कुल मिलाकर मुसलमान श्रेष्ठतम हैं मुस्लिम समाज में इन काली भेड़ों के बावजूद यदि मुसलमानों का कुल मिलाकर आकलन किया जाए तो वह विश्व का सबसे अच्छा समाज सिद्ध होंगे। जैसे मुसलमान ही विश्व की सबसे बड़ी जमाअत है जो शराब से परहेज़ करते हैं। इसी प्रकार मुसलमान ही हैं जो विश्व में सर्वाधिक दान देते हैं। विश्व का कोई समाज ऐसा नहीं जो मानवीय आदर्शों (सहिष्णुता, सदाचार और नैतिकता) के संदर्भ में मुस्लिम समाज से बढ़कर कोई उदाहरण प्रस्तुत कर सकें।
कार का फ़ैसला ड्राईवर से न कीजिए मान लीजिए कि आपने एक नए माॅडल की मर्सडीज़ कार के गुण-दोष जानने के लिए एक ऐसे व्यक्ति को थमा देते हैं जो गाड़ी ड्राइव करना नहीं जानता। ज़ाहिर है कि व्यक्ति या तो गाड़ी चला ही नहीं सकेगा या एक्सीडेंट कर देगा। प्रश्न यह उठता है कि क्या ड्राईवर की अयोग्यता में उस गाड़ी का कोई दोष है? क्या यह ठीक होगा कि ऐसी दुर्घटना की स्थिति में हम उस अनाड़ी ड्राईवर को दोष देने के बजाए यह कहने लगें कि वह गाड़ी ही ठीक नहीं है? अतः किसी कार की अच्छाईयाँ जानने के लिए किसी व्यक्ति को चाहिए कि उसके ड्राईवर को न देखे बल्कि यह जायज़ा ले कि स्वयं उस कार की बनावट और कारकर्दगी इत्यादी कैसी है। जैसे वह कितनी गति से चल सकती है। औसतन कितना ईंधन लेती है। उसमें सुरक्षा के प्रबन्ध कैसे हैं, इत्यादि।
यदि मैं केवल तर्क के रूप में यह मान भी लूँ कि सारे मुसलमान बुरे हैं तब भी इस्लाम का उसके अनुयायियों के आधार पर फ़ैसला नहीं कर सकते। यदि आप वास्तव में इस्लाम का विश्लेषण करना चाहते हैं और उसके बारे में ईमानदाराना राय बनाना चाहते हैं तो आप इस्लाम के विषय में केवल पवित्र क़ुरआन और प्रामाणिक हदीसों के आधार पर ही कोई राय स्थापित कर सकते हैं।
इस्लाम का विश्लेषण उसके श्रेष्ठतम पैरोकार अर्थात हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के द्वारा कीजिए

यदि आप पूर्ण रूप से जानना चाहते हैं कि कोई कार कितनी अच्छी है तो उसका सही तरीकष यह होगा कि वह कार किसी कुशल ड्राईवर के हवाले करें। इसी प्रकार इस्लाम के श्रेष्ठतम पैरोकार और इस्लाम की अच्छाईयों को जाँचने का सबसे अच्छी कसौटी केवल एक ही हस्ती है जो अल्लाह के आख़िरी पैग़म्बर हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के अतिरिक्त कोई और नहीं है। मुसलमानों के अतिरिक्त ऐसे ईमानदार और निष्पक्ष इतिहासकार भी हैं जिन्होंने हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को श्रेष्ठतम महापुरुष स्वीकार किया है। ‘‘इतिहास के 100 महापुरुष’’ नामक पुस्तक के लेखक माईकल हार्ट ने अपनी पुस्तक में आप (सल्लॉ) को मानव इतिहास की महानतम विभूति मानते हुए पहले नम्बर पर दर्ज किया है। (पुस्तक अंग्रेज़ी वर्णमाला के अनुसार है परन्तु लेखक ने हुजूष्र (सल्लॉ) की महानता दर्शाने के लिए वर्णमाला के क्रम से अलग रखकर सबसे पहले बयान किया है) लेखक ने इस विषय में लिखा है कि ‘‘हज़रत मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) का व्यक्तित्व इतना प्रभावशाली और महान है कि उनका स्थान शेष सभी विभूतियों से बहुत ऊँचा है इसलिए मैं वर्णमाला के क्रम को नज़रअंदाज़ करके उनकी चर्चा पहले कर रहा हूँ।’’
इसी प्रकार अनेक ग़ैर मुस्लिम इतिहासकारों ने हज़रत मुहम्मद मुस्तफ़ा सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की प्रशंसा की है इन में थामस कारलायल और लामर्टिन इत्यादि के नाम शामिल हैं।
ग़ैर मुस्लिमों का अपमान

प्रश्नः मुसलमान ग़ैर मुस्लिमों का अपमान करते हुए उन्हें ‘‘काफ़िर’’ क्यों कहते हैं?
उत्तरः शब्द ‘‘काफ़िर’’ वास्तव में अरबी शब्द ‘‘कुफ्ऱ’’ से बना है। इसका अर्थ है ‘‘छिपाना, नकारना या रद्द करना’’। इस्लामी शब्दावली में ‘‘काफ़िर’’ से आश्य ऐसे व्यक्ति से है जो इस्लाम की सत्यता को छिपाए (अर्थात लोगों को न बताए) या फिर इस्लाम की सच्चाई से इंकार करे। ऐसा कोई व्यक्ति जो इस्लाम को नकारता हो उसे उर्दू में ग़ैर मुस्लिम और अंग्रेज़ी में Non-Muslim कहते हैं।
यदि कोई ग़ैर-मुस्लिम स्वयं को ग़ैर मुस्लिम या काफ़िर कहलाना पसन्द नहीं करता जो वास्तव में एक ही बात है तो उसके अपमान के आभास का कारण इस्लाम के विषय में ग़लतफ़हमी या अज्ञानता है। उसे इस्लामी शब्दावली को समझने के लिए सही साधनों तक पहुँचना चाहिए। उसके पश्चात न केवल अपमान का आभास समाप्त हो जाएगा बल्कि वह इस्लाम के दृष्टिकोण को भी सही तौर पर समझ जाएगा।

एक समय में एक से अधिक पति (Polygamy)

प्रश्नः यदि एक पुरूष को एक से अधिक पत्नियाँ करने की अनुमति है तो इस्लाम में स्त्री को एक समय में अधिक पति रखने की अनुमति क्यों नहीं है?
उत्तरः अनेकों लोग जिन में मुसलमान भी शामिल हैं, यह पूछते हैं कि आख़िर इस्लाम मे पुरूषों के लिए बहुपत्नीकी अनुमति है जबकि स्त्रियों के लिए यह वर्जित है,  इसका बौद्धिक तर्क क्या है?क्योंकि उनके विचार में यह स्‍त्रि का ‘‘अधिकार’’ है जिससे उसे वंचित किया गया है आर्थात उसका अधिकार हनन किया गया है।
उत्तर :पहले तो मैं आदरपूर्वक यह कहूंगा कि इस्लाम का आधार न्याय और समता पर है। अल्लाह ने पुरूष और स्त्री की समान रचना की है किन्तु विभिन्न योग्यताओं के साथ और विभिन्न ज़िम्मेदारियों के निर्वाहन के लिए। स्त्री और पुरूष न केवल शारीरिक रूप से एक दूजे से भिन्न हैं वरन् मनोवैज्ञानिक रूप से भी उनमें स्पष्ट अंतर है। इसी प्रकार उनकी भूमिका और दायित्वों में भी भिन्नता है। इस्लाम में स्त्री-पुरूष (एक दूसरे के) बराबर हैं परन्तु परस्पर समरूप (Identical) नहीं है।
पवित्र क़ुरआन की पवित्र सूरह ‘‘अन्-निसा’’ की 22वीं और 24वीं आयतों में उन स्त्रियों की सूची दी गई है जिनसे मुसलमान विवाह नहीं कर सकते। 24 वीं पवित्र आयत में यह भी बताया गया है कि उन स्त्रियों से भी विवाह करने की अनुमति नहीं है जो विवाहित हो।
निम्ननिखित कारणों से यह सिद्ध किया गया है कि इस्लाम में स्त्री के लिये एक समय में एक से अधिक पति रखना क्यों वर्जित किया गया है।
1. यदि किसी व्यक्ति के एक से अधिक पत्नियाँ हों तो उनसे उत्पन्न संतानों के माता-पिता की पहचान सहज और संभव है अर्थात ऐसे बच्चों के माता-पिता के विषय में किसी प्रकार का सन्देह नहीं किया जा सकता और समाज में उनकी प्रतिष्ठा स्थापित रहती है। इसके विपरीत यदि किसी स्त्री के एक से अधिक पति हों तो ऐसी संतानों की माता का पता तो चल जाएगा लेकिन पिता का निर्धारण कठिन होगा। इस्लाम की सामाजिक व्यवस्था में माता-पिता की पहचान को अत्याधिक महत्व दिया गया है।
मनोविज्ञान शास्त्रियों का कहना है कि वे बच्चे जिन्हें माता पिता का ज्ञान नहीं, विशेष रूप से जिन्हें अपने पिता का नाम न मालूम हो वे अत्याघिक मानसिक उत्पीड़न और मनोवैज्ञानिक समस्याओं से ग्रस्त रहते हैं। आम तौर पर उनका बचपन तनावग्रस्त रहता है। यही कारण है कि वेश्याओं के बच्चों का जीवन अत्यंत दुख और पीड़ा में रहता है। ऐसी कई पतियों की पत्नी से उत्पन्न बच्चे को जब स्कूल में भर्ती कराया जाता है और उस समय जब उसकी माता से बच्चे के बाप का नाम पूछा जाता है तो उसे दो अथवा अधिक नाम बताने पड़ेंगे।
मुझे उस आधुनिक विज्ञान की जानकारी है जिसके द्वारा ‘‘जेनिटिक टेस्ट’’ या DNA जाँच से बच्चे के माता-पिता की पहचान की जा सकती है, अतः संभव है कि अतीत का यह प्रश्न वर्तमान युग में लागू न हो।
2. स्त्री की अपेक्षा पुरूष में एक से अधिक पत्नी का रूझान अधिक है।
3. सामाजिक जीवन के दृष्टिकोण से देखा जाए तो एक पुरूष के लिए कई पत्नियों के होते हुए भी अपनी ज़िम्मेदारियाँ पूरी करना सहज होता है। यदि ऐसी स्थिति का सामना किसी स्त्री को करना पड़े अर्थात उसके कई पति हों तो उसके लिये पत्नी की ज़िम्मेदारिया कुशलता पूर्वक निभाना कदापि सम्भव नहीं होगा। अपने मासिक धर्म के चक्र में विभिन्न चरणों के दौरान एक स्त्री के व्यवहार और मनोदशा में अनेक परिवर्तन आते हैं।
4. किसी स्त्री के एक से अधिक पति होने का मतलब यह होगा कि उसके शारीरिक सहभागी (Sexual  PARTNERS ) भी अधिक होंगे। अतः उसको किसी गुप्तरोग से ग्रस्त हो जाने की आशंका अधिक होगी चाहे वह समस्त पुरूष उसी एक स्त्री तक ही सीमित क्यों न हों। इसके विपरीत यदि किसी पुरूष की अनेक पत्नियाँ हों और वह अपनी सभी पत्नियों तक ही सीमित रहे तो ऐसी आशंका नहीं के बराबर है।
उपरौक्त तर्क और दलीलें केवल वह हैं जिनसे सहज में समझाया जा सकता है। निश्चय ही जब अल्लाह तआला ने स्त्री के लिए एक से अधिक पति रखना वर्जित किया है तो इसमें मानव जाति की अच्छाई के अनेकों उद्देश्य और प्रयोजन निहित होंगे।
मज़हब / धर्म
प्रश्न : अल्लाह ने सभी को अपने मज़हब का क्यों नहीं बनाया ?
उत्तर : इसका उत्तर क़ुरआन ने विभिन्न स्थानों पर दिया है क़ुरआन में कहा गयाः
अल-कुरान : “[ऐ मुहम्मद(सलल्लाहो अलैहि वसल्लम)] यदि आपका रब चाहता तो सब लोगों को एक रास्ते पर एक उम्मत कर देता, वे तो सदैव मुखालफ़त करने वाले ही रहेंगे। सिवाए उनके जिन पर आपका रब दया करे, उन्हें तो इसी लिए पैदा किया है। ” – (सूरः हूद 118) यही विषय सूरः यूनुस 96,सरः माईदा 48,सूरः शोरा 8,सूरः नहल 93 और अन्य विभिन्न आयतों में बयान किया गया है।
यह संसार परीक्षा-स्थल है परिणाम स्थल नहीं। यहाँ हर व्यक्ति को एक विशेष अवधि के लिए बसाया गया है ताकि उसका पैदा करने वाला देखे कि कौन अपने रब की आज्ञाकारी करके उसका प्रिय बनता है और कौन उसकी अवज्ञा करके उसके प्रकोप का अधिकार ठहरता है। इसके लिए उनसे संदेष्टाओं (नबी/रसूल) द्वारा अपना संदेश भेजा और सत्य को खोल खोल कर बयान कर दिया है। फिर इनसान को उसे अपनाने की आज़ादी भी दे दी है कि चाहे तो उसके नियम को अपना कर उसके उपकारों का अधिकार बने और चाहे तो उसके नियमों का उलंधन कर के उसके प्रकोप को भुगतने के लिए तैयार हो जाए। यही है जीवन की वास्तविकता। इस बिन्दु को क़ुरआन की यह आयत स्पष्ट रूप में बयान करती हैः
अल-कुरान : और यदि आपका रब चाहता तो धरती के सभी लोग ईमान ले आते, तो क्या आप लोगों को ईमान लाने के लिए मजबूर करेंगे” – (सूरः यूनुस)

आत्म हत्या की बढ़ती हुई मानसिकता
और उसका समाधान
प्रशन: आत्म हत्या की बढ़ती हुई मानसिकता और उसका समाधान और इसका कारण क्या है ?
उत्तर: आत्म हत्या की बढ़ती हुई मानसिकता और उसका समाधान इस समय दुर्भाग्य से पूरी दुनिया में आत्म-हत्या का रुजहान बढ़ता जा रहा है। पश्चिमी देशों में सामाजिक व्यवस्था के बिखराव के कारण समय से आत्म-हत्या की बीमारी प्रचलिम है। भारत सरकार की तत्कालिन रिपोर्ट के अनुसार भारत में हर एक घंटे में आत्म-हत्या की पंद्रह घटनाएं पेश आती हैं।
खेद की बात यह है कि आत्म-हत्या की इन घटनाओं में एक अच्छी खासी संख्या पढ़े लिखे और उच्च शिक्षित युवकों की है । सप्ताह में चार पाँच दिन दैनिक अख़बारों में ऐसी ख़बरें मिल ही जाती हैं जिनमें महिलाओं की आत्म-हत्या का वर्णन होता है, यह घटनायें सामान्य रूप में ससुराल वालों के अत्याचार और पैसों के न खत्म होने वाली मांगों के कारण पेश आती हैं। ऐसे मां बाप की मौत भी अनोखी बात नहीं रही जो अपनी गरीबी के कारण अपनी बेटियों के हाथ पीले करने में असमर्थ हैं और ज़ालिम समाज ने उन्हें सख्त मानसिक तनाव में ग्रस्त किया हुआ है।
» इसका कारण क्या है? और इसका समाधान कैसे सम्भव हो सकता हैआइए इस्लामी दृष्टिकोण से इस विषय पर विचार करते हैं:

मनुष्य पर अनिवार्य है कि वह संभवतः अपनी जान की सुरक्षा करे, क्योंकि जीवन उसके पास ईश्वर (अल्लाह) की अमानत है और अमानत की सुरक्षा करना हमारा नैतिक और मानवीय दायित्व है। इसलिए इस्लाम की निगाह में आत्म-हत्या बहुत बड़ा पाप और गंभीर अपराध है। ऐसा पाप जो उसे दुनिया से भी वंचित करता है और परलोक से भी । खुद कुरआन ने आत्म-हत्या से मना फ़रमाया हैः अल्लाह (ईश्वर) का आदेश है:
अल कुरान: “(ऐ इंसानों !) अपने आप को क़त्ल मत करो” - (सूरह ४: अन निसा: आयत 29)

और अन्तिम संदेष्टा मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) के विभिन्य प्रवचनों में आत्म-हत्या का खंडन किया गया और बहुत सख्ती और बल के साथ आत्म-हत्या से मना किया गया है।
हदीस : आप मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने फरमायाः जिसने अपने आप को पहाड़ से गिरा कर आत्म-हत्या की वह नरक की आग में भी इसी तरह हमेशा गिरता रहेगा और जिस व्यक्ति ने लोहे की हथियार से खुद को मारा वह नरक में भी हमेशा अपने पेट में हथियार घोंपता रहेगा।” - (बुखारी शरीफ)
एक दूसरे स्थान पर आपका आदेश हैः
हदीस: “गला घोंट कर आत्महत्या करने वाला नरक में हमेशा गला घोंटता रहेगा और अपने आप को भाला मार कर हत्या करने वाला नरक में भी हमेशा अपने आप को भाला मारता रहेगा।” - (बुखारी शरीफ)

क़ुरआन और मुहम्मद (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) के प्रवचनों से अनुमान किया जा सकता है कि आत्म-हत्या इस्लाम की निगाह में कितना गंभीर अपराध है। यह वास्तव में जीवन की समस्याओं और मुश्किलों से भागने का रास्ता अपनाना है और अपनी ज़िम्मेदारियों से भाग निकलने का एक अवैध और अमानवीय उपाय है।
ऐसा व्यक्ति कभी आत्म-हत्या की मानसिकता नहीं बना सकता :
जो व्यक्ति अल्लाह पर विश्वास रखता हो, वह दृढ़ विश्वास रखता हो कि अल्लाह समस्याओं की काली रात से आसानी और उम्मीद की नई सुबह पैदा कर सकता है, जो व्यक्ति भाग्य में विश्वास रखता हो कि खुशहाली और तंगी संकट और तकलीफ़ अल्लाह ही की ओर से है । धैर्य और संतोष मनुष्य का कर्तव्य है और जो परलोक में विश्वास रखता हो कि जीवन की परेशानियों से थके हुए यात्रियों के लिए वहाँ राहत और आराम है। ऐसा व्यक्ति कभी आत्म-हत्या की मानसिकता नहीं बना सकता।
आज आवश्यकता इस बात की है कि आत्म-हत्या के नैतिक और सामाजिक नुकसान लोगों को बताए जाएं। समाज के निर्धनों और कमज़ोरों के साथ नरमी और सहयोग का व्यवहार किया जाए। घर और परिवार में प्रेम का वातावरण स्थापित किया जाए।
बाहर से आने वाली बहू को प्यार का उपहार दिया जाए, रिती रिवाज की जिन जंजीरों ने समाज को घायल किया है, उन्हें काट फेंका जाए। शादी, विवाह के कामों को सरल बनाए जाएं और जो लोग मानसिक तनाव में ग्रस्त हों और समस्याओं में घिरे हुए हों उनमें जीने और समस्याओं और संकट से मुक़ाबला करने की साहस पैदा की जाए।
बुज़ुर्गाने दीन के हाथ पाउ चूमना

प्रशन: क्या बुज़ुर्गाने दीन के हाथ पाओं चूम सकते है हदीस शरीफ से हवाला दें ?
उत्तर: हदीस 1: हज़रत ज़राअ रदीयल्लाहू अनहु से रिवायत है की वो फरमाते है की जब हम मदीना मुनव्वरह आए तो अपनी सवारियों पर से उतरने मे जल्दी करने लगे पस हम हुज़ूर अलैहिस्सलाम के हाथ ,पाऊँ शरीफ चूमते थे।
(मिश्कात बाबुल मुसाफह वल मुआनकह अल फस्ल सानी)
हदीस 2: मिश्कात ने बा रिवायत अबु दाऊद और तिरमिजी से नकल किया की हुज़ूर अलैहिस्सलाम ने हज़रत उस्मान बिन मजऊन रदीयल्लाहू अनहु को बोसा दिया हालांकि उनका इंतेकाल हो चुका था।
काज़ी अयाज़ शिफा शरीफ मे हदीस नकल करते है कि “जिस मिंबर पर हुज़ूर अलैहिस्सलाम खुतबा फरमाते थे उस पर हज़रत अब्दुल्लाह इबने उमर रदीयल्लाहू अनहु अपना हाथ रख कर चूमते थे
इबने अबी मुसन्निफ़ यमनी जो की मक्का के उलमा-ए-शाफ़िया मे से है फरमाते है कि  “कुरान करीम और हदीस के पेजों और बुज़ुर्गाने दीन की कब्र चूमना जाइज़ है
अब अकवाल फ़िकह मुलाहिजा हो
फतावा आलमगिरी किताबुल करहिया बाब ममलूक मे है- “अगर आलिम और आदिल बादशाह के हाथ चूमे उनके इल्म व अदल की वजह से तो इसमे हरज नहीं
इसी आलमगिरी के किताबुल कराहिया बाब जियारतुल कुबूर मे है- “अपने माँ बाप की कब्रे चूमने मे हरज नहीं
दुर्रे मुख्तार जिल्द पंजम किताबुल कराहिया बाब मुसाफह मे है कि “ आलिम और अदिल बादशाह के हाथ चूमने मे हरज नहीं
इसी किताब मे अल्लामा इबने आबिदीन शामी ने एक हदीस नकल की कि “ हुज़ूर अलैहिस्सलाम ने उस शख्स को इजाजत दी उस ने आप के सर और पाऊँ मुबारक को बोसा दिया
अब इस पर एक एतराज़ आता है की पाऊँ का बोसा झुक के लेना पड़ेगा और ये सजदा गेरुल्लाह है लिहाजा हराम है ?
जी नहीं अव्वलन तो हम सजदे की तारीफ (Definition) देख लेते है फिर सजदे के अहकाम फिर किसी के सामने झुकने का क्या हुक्म है इससे ये एतराज़ खुद ही दफा हो जाएगा।
शरीयत मे सजदा ये है जिसमे जिस्म के सात आजू (Body Parts) ज़मीन पर लगे। दोनों पंजे दोनों घुटने दोनों हाथ और नाक और पेशानी फिर उसमे सजदे की नियत भी हो क्यूंकी बेगैर सजदे की नियत के कोई शख्स ज़मीन पर औंधा लेट गया तो सजदा न होगा।
सजदा भी दो तरह का है सजदा- ए- इबादत और सजदा-ए-ताजीमी
सजदा ताजिमी तो वो जो किसी से मुलाक़ात के वक्त उसका किया जाए |
सजदा इबादत वो जो किसी को खुदा मान कर किया जाए ।
सजदा-ए-इबादत गेरुल्लाह को करना शिर्क है किसी नबी के दीन मे जाइज़ न हुआ। सजदा-ए-ताजिमी हज़रत आदम अलैहिस्सलाम से ले कर हुज़ूर अलैहिस्सलाम के जमाने के पहले तक जाइज़ रहा। फरिश्तों ने जो हज़रत आदम अलैहिस्सलाम को सजदा किया वो सजदा-ए-ताजिमी था। हज़रत याक़ूब अलैहिस्सलाम और हज़रत युसुफ अलैहिसलाम की बिरादरी ने हज़रत युसुफ अलैहिस्सलाम को सजदा किया।
दुर्रे मुख्तार मे है – “अगर ज़मीन चूमना इबादत और ताज़ीम के लिए हो तो कुफ्र है और अगर ताज़ीम के लिए हो तो कुफ्र नहीं हा गुनहगार होगा और गुनाह-ए-कबीरा का मुर्तकीब होगा।
रहा गैर के सामने झुकना इसकी दो नीयतें है एक तो ये की झुकना ताज़ीम के लिए हो जैसे की झुक कर सलाम करना । लेकिन ताज़ीम के लिए इतना झुकना की रुकु के बराबर झुक गया तो हराम है इसी को उलमा मना फरमाते है । दूसरा ये की झुकना किसी और काम के लिए हो जैसे अपने शेख का जूता सही करना हो या पाऊँ का बोसा लेना हो ये सब हलाल है और अगर जाइज़ न हो तो उन हदिसो का क्या जिसमे हुज़ूर अलैहिस्सलाम के पाऊँ मुबारक चूमने की दलील है। नीज़ ये सवाल वहाबीयूँ देवबंदीयूँ  के लिए भी खिलाफ होगा क्यूंकी उनके पेशवा मौलवी रशीद अहमद गंगोही ने भी हाथ पाऊँ चूमना जाइज़ लिखा है।
पांच कलमे
पहला कलमा तय्यब 
ला इला ह  इलल्लाहु मुहम्मदुर्रसूलुल्लाहि !! (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम)
» तर्जुमा : अल्लाह के सिवा कोई माबूद नहीं और हज़रत मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम अल्लाह के नेक बन्दे और आखिरी रसूल है |

दूसरा कलमा शहादत 
अश-हदु अल्लाह इला ह इल्लल्लाहु वह दहु ला शरी-क लहू व अशदुहु अन्न मुहम्मदन अब्दुहु व रसूलुहु.
» तर्जुमा: मैं गवाही देता हु के अल्लाह के सिवा कोई माबूद नहीं (पूजने के क़ाबिल नहीं) वह अकेला है उसका कोई शरीक नहीं और मैं गवाही देता हूँ कि (हज़रत) मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम अल्लाह के नेक बन्दे और आखिरी रसूल हैं ।
तीसरा कलमा तमजीद 
सुब्हानल्ला हि वल् हम्दु लिल्लाहि वला इला-ह इलल्लाहु वल्लाहु अकबर, वला हौ ल वला कूव्-व-त इल्ला बिल्लाहिल अलिय्यील अजीम |
.
» तर्जुमा : अल्लाह पाक है और सब तारीफें अल्लाह ही के लिए है और अल्लाह के सिवा कोई माबूद नहीं | इबादत के लायक तो सिर्फ अल्लाह है और अल्लाह सबसे बड़ा है और किसी में न तो ताकत है न बल लेकिन ताकत और बल तो अल्लाह ही में है जो बहुत शान वाला और बड़ा है |

चौथा कलमा तौहीद
ला इला ह इल्लल्लाहु वह्-दहु ला शरीक लहू लहुल मुल्क व लहुल हम्दु युहयी व युमीतु व हु-व हय्युल-ला यमूतु अ-ब-दन अ-ब-दा जुल-जलालि वल इक् रामि बि  य दि-हिल खैर व हु-व अला कुल्लि शैइन क़दीर |

» तर्जुमा: अल्लाह के सिवा कोई माबूद नहीं इबादत के लायक, वह एक है, उसका कोई साझीदार नहीं, सब कुछ उसी का है. और सारी तारीफ़ें उसी अल्लाह के लिए है. वही जिलाता है और वही मारता है | और वोह जिन्दा है, उसे हरगिज़ कभी मौत नहीं आएगी. वोह बड़े जलाल और बुजुर्गी वाला है| अल्लाह के हाथ में हर तरह कि भलाई है और वोह हर चीज़ पर क़ादिर है.
पांचवाँ कलमा इस्तिग़फ़ार 
अस्तग़-फिरुल्ला-ह रब्बी मिन कुल्लि जाम्बिन अज-नब-तुहु अ-म-द-न अव् ख-त-अन सिर्रन औ अलानियतंव् व अतूवु इलैहि मिनज-जम्बिल-लजी ला अ-अलमु इन्-न-क अन्-त अल्लामुल गुयूबी व् सत्तारुल उवूबि व् गफ्फा-रुज्जुनुबि वाला हो-ल वला कुव्-व-त इल्ला बिल्लाहिल अलिय्यील अजीम |
» तर्जुमा : मै अपने पर-वरदिगार (अल्लाह) से अपने तमाम गुनाहो की माफ़ी मांगता हुँ जो मैंने जान-बूझकर किये या भूल कर किये, छुप कर किये या खुल्लम खुल्ला किये और तौबा करता हु मैं उस गुनाह से, जो मैं जनता हु और उस गुनाह से जो मैं नहीं जानता या अल्लाह बेशक़ तू गैब की बाते जानने वाला और ऐबों को छुपाने वाला है और गुनाहो को बख्शने वाला है और (हम मे) गुनाहो से बचने और नेकी करने कि ताक़त नहीं अल्लाह के बगैर जो के बोहोत बुलंद वाला है.

जरुरी बातें
अक्सर देखा जाता है की कई गैर-मुस्लिम मुस्लिमो द्वारा इस्तेमाल किये जाने वाले आम शब्द जैसे माशाअल्लाह, सुभानल्लाह, इंशाल्लाह इत्यादि का मतलब नहीं पता होता. नीचे इनका मतलब और इन्हें कहाँ इस्तेमाल किया जाता है इसकी जानकारी दी गयी है. अगर कोई शब्द ऐसा है जो यहाँ न लिखा हो लेकिन आप उसका मतलब जानना चाहते हों तो वेबसाइट के फीडबैक या इस पोस्ट के कमेंट बॉक्स में पूछ सकते हैं. 
बिस्मिल्लाही रहमानीर्रहीम (Bismillah-Hirrahman-Nirrahim)
अल्लाह के नाम से शुरू जो बड़ा कृपालु और अत्यन्त दयावान हैं|
अस्सलामो अलैकुम (Asalamo Alaikum)
यह मुस्लिमो का सबसे आम अभिवादन (Greeting) है जो वह एक दुसरे से मिलने पर कहते हैं. इसका मतलब होता है अल्लाह तुम पर सलामती(peace) अता फरमाए|
वा अलैकुम अस-सलाम (Walaikum As-Salaam)
यह सलाम के जवाब में कहा जाता है. इसका मतलब होता है अल्लाह तुम पर भी सलामती (peace) अता फरमाए|
अल्हम्दुल्लिलाह (Alahmdulillah)
यह शब्द मुस्लिम अल्लाह की रिज़ा में राज़ी रहने के लिए बोलते हैं. इसका मतलब होता है समस्त प्रशंसाएं केवल अल्लाह ही के लिए है (सारी तारीफे सिर्फ अल्लाह ही के लिए है और शुक्र है अल्लाह का) |
माशाअल्लाह (MashaAllah)
यह शब्द मुस्लिम अपनी ख़ुशी, उत्साह या कोई बेहतरीन चीज़ को देखकर बोलते हैं. इसका मतलब होता है जो भी अल्लाह चाहे..या अल्लाह जो भी देना चाहता है, देता है”. यानि की अल्लाह जिसको चाहता है उसे कोई अच्छी चीज़, ख़ुशी, भलाई या कामयाबी देता है. ऐसा होने पर मुसलिम माशाल्लाह कहते हैं.
इन्शाअल्लाह (In sha Allah) 
जब कोई शख्स भविष्य में कोई कार्य करना चाहता है, या उसका इरादा करता है या भविष्य में कुछ होने की आशंका व्यक्त करता है या कोई वादा करता है या कोई शपथ लेता है तो इस शब्द का उपयोग करता है. ऐसा करने का हुक्म कुरान में है. इंशाल्लाह का मतलब होता है अगर अल्लाह ने चाहा
सुबहानअल्लाह (SubhanAllah)
इसका मतलब होता है पाकी (Glory) है अल्लाह के लिए’. एक मुस्लिम अल्लाह की किसी विशेषता, उपकार, चमत्कार इत्यादि को देखकर अपने उत्साह की अभिव्यक्ति के लिए करता है|
अल्लाहु-अकबर (AllahuAkbar) 
 इसका मतलब होता है अल्लाह सबसे बड़ा(महान) है’|
जज़ाकल्लाह (JazakAllah)
इसका मतलब होता है अल्लाह तुम्हे इसका बेहतरीन बदला दे| जब एक मुसलिम किसी दुसरे मुसलिम की मदद या उपकार करता है तो अपनी कृतज्ञता दिखाने के लिए एक मुसलिम दुसरे मुसलिम से यह कहता है.
अल्लाह हाफिज़ (Allah Hafiz)
अकसर कई मुस्लिम एक दुसरे से विदा लेते वक़्त इसका इस्तेमाल करते हैं. इसका मतलब होता है अल्लाह हिफाज़त करने वाला (हाफिज़) है’. इसके पीछे भावना यही होती है की अल्लाह तुम्हारी हिफाज़त करे
ला हौल वाला कुवत इल्ला बिल्ला हिल अली इल अज़ीम :
(wa La Houla Wala Quwa’ta illaa Billah Hil Ali Yel Azeem)
अल्लाह के सिवा कोई कुव्वत नहीं (मुसिबतो से) बचाने वाली जो के अज़ीम-तर है.
सल्ललाहु अलै हि व सल्लम (Sallallahu Alaihi Wa sallam)
यह शब्द अल्लाह के आखरी पैगम्बर हुज़ूर अहमद मुजतबा मुहम्मद मुस्तफ़ा (सल्लाहु  अलै हि व सल्लम) का नाम लेने या उनका ज़िक्र होने पर इस्तेमाल किया जाता है| यह इज्ज़त देने और आप (सल्लाहु  अलैहि व सल्लम) पर सलामती भेजने के लिए इस्तेमाल किया जाता है| इसका मतलब होता है आप पर अल्लाह की कृपा और सलामती हो|
मौत   आए   दरे  नबी  (सल्लल्लाहु  अलैह व  सल्लम)   पर सय्यद
वरना  थोड़ी सी  जमीं हो  शाहे  सिमनां  (किछौछा शरीफ)  के  क़रीब

तालिबे दुआ:………………..
आले रसूल अहमद अल- अशरफ़ी अल- क़ादरी