Islam Aur Taqwa
اسلام
اسلام سلم سے بناجن کے معنی ہیں صلح،جنگ کامقابل۔ رب تعالیٰ فرماتاہے:
وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلْمِ
فَاجْنَحْ لَہَا
اگر وہ صلح کی طر ف مائل ہوں توتم بھی
اس طر ف جھک جاؤ۔(پ10،الانفال:61)
لہٰذا اسلام کے معنی ہوئے صلح کرنا ۔ مگر عرف میں اسلام کے معنی اطاعت
وفرمانبرداری ہے ،قرآن شریف میں یہ لفظ کبھی تو ایمان کے معنی میں آتا ہے او رکبھی
اطاعت وفرمانبرداری کرنے کے لئے ، ان آیات میں اسلام بمعنی ایمان ہے ۔
(1) اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ
اللہِ الۡاِسْلَامُ
پسندیدہ دین اللہ کے نزدیک اسلام
ہے(پ3،اٰل عمرٰن:19)
(2)ہُوَ سَمّٰىکُمُ الْمُسْلِمِیۡنَ
۬ۙ
اس رب نے تمہارا نام مسلم
رکھا(پ17،الحج:78)
(3) مَاکَانَ اِبْرٰہِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا
وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسْلِمًا ؕ
ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی
لیکن وہ حنیف ایمان والے تھے۔(پ3،اٰل عمرٰن:67)
(4) قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ
اِسْلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمْ اَنْ ہَدٰىکُمْ لِلْاِیۡمَانِ اِنۡ
کُنۡتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾
فرمادو کہ تم مجھ پر اپنے اسلام کا
احسان نہ جتا ؤ بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ تمہیں ایمان کی ہدایت دی اگر
تم سچے ہو ۔(پ26،الحجرات:17)
(5)تَوَفَّنِیۡ مُسْلِمًا وَّ
اَلْحِقْنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۱﴾
مجھے مومن اٹھا اور صالحوں سے ملا۔(پ13،یوسف:101)
(6)وَّ اَنَّا مِنَّا
الْمُسْلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الْقَاسِطُوۡنَ ؕ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰٓئِکَ
تَحَرَّوْا رَشَدًا ﴿۱۴﴾
اورہم میں سے کچھ مسلمان ہیں اور کچھ
ظالم جو اسلام لائے انہوں نے بھلائی تلاش کرلی ۔(پ29،الجن:14)
ان آیات اور ان جیسی دو سری آیات میں اسلام ایمان کے معنی میں ہے۔ لہٰذا جیسے
ایمان کا دار ومدار امت کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سچی غلامی
پر ہے ایسے ہی اسلام کا مدار بھی اس سرکار کی غلامی پر ہے۔ لہٰذا حضورصلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت کا منکر نہ مومن ہے نہ مسلمان جیسے شیطان نہ مومن ہے نہ
مسلم بلکہ کافر و مشرک ہے ۔
بعض آیات میں اسلام بمعنی اطا عت آیاہے جیسے
(1) لَہٗۤ اَسْلَمَ مَنۡ فِی
السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ
اس اللہ کے فرمانبردار ہیں تمام آسمانوں
اور زمینوں کے لوگ ۔(پ3،اٰل عمرٰن:83)
کُلٌّ لَّہ، قَانِتُوْنَ ہر
ایک اس کامطیع ہے یعنی تکوینی احکام میں۔(پ۲۱،الروم:۲۶)
یہا ں''قانتین'' نے''اسلم'' کی تفسیر کردی کیونکہ ساری چیز یں رب تعالیٰ کی
تکوینی امور میں مطیع توہیں مگر سب مومن نہیں بعض کا فر بھی ہیں۔ فَمِنۡکُمْ کَافِرٌوَّ مِنۡکُمْ مُّؤْمِنٌ ؕ (پ28،التغابن:2)
(2) قُلۡ لَّمْ تُؤْمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ
قُوۡلُوۡۤا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمْ ؕ
اے منافقو! یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے
آئے بلکہ یوں کہو کہ ہم نے اطا عت قبول کرلی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں
داخل نہیں ہوا ۔(پ26،الحجرات:14)
منافق مسلم بمعنی مطیع تو تھے مومن نہ
تھے ۔
(3) فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ
تَلَّہٗ لِلْجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚوَ نَادَیۡنٰہُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙ
توجب دونوں ابراہیم واسماعیل نے ہمارے
حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا (ذبح کیلئے) اور ہم نے
ندا کی اے ابراہیم(پ23،الصّٰفّٰت:103،104)
(4) اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ
اَسْلِمۡ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾
جب فرمایا ابراہیم سے ان کے رب نے مطیع ہوجاؤ
عرض کیا کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار ہوا۔(پ1،البقرۃ:131)
ان دونوں آخر ی آیات میں اسلام کے معنی ایمان نہیں بن سکتے کیونکہ انبیاء پیدا
ئشی مومن ہوتے ہیں ان کے ایمان لانے کے کیا معنی ؟
ان آیات میں اسلام بمعنی اطاعت ہے ۔ پہلی آیت میں تکوینی امور کی اطاعت
مراد ہے جیسے بیماری ، تندرستی ، موت، زندگی وغیرہ ۔ آخری دوسری دوآیات میں تشریعی
احکام کی اطا عت مراد ہے لہٰذا منافق مومن نہ تھے مسلم تھے یعنی مجبوراً اسلامی
قوانین کے مطیع ہوگئے تھے ۔
تقویٰ
قرآن کریم میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے بلکہ ایمان کے ساتھ تقویٰ کا اکثر
حکم آتا ہے ۔ تقویٰ کے معنی ڈرنا بھی ہیں اور بچنا بھی اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ
یا قیامت کے دن سے ہو تو اس سے ڈرنا مراد ہوتا ہے کیونکہ رب سے اور قیامت سے کوئی
نہیں بچ سکتا جیسے
(1) یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا
اتَّقُوا اللہَ
اے ایما ن والو! اللہ سے ڈرو!(پ3،البقرۃ:278)
(2) وَاتَّقُوۡا یَوْمًا لَّا
تَجْزِیۡ نَفْسٌ عَنۡ نَّفْسٍ شَیْـًٔا
اور اس دن سے ڈرو جس دن کو ئی نفس کسی
نفس کی طر ف سے نہ بدلا دے گا ۔(پ1،البقرۃ:48)
اور اگر تقویٰ کے ساتھ آگ یا گناہ کا
ذکر ہو تو وہاں تقویٰ سے بچنا مراد ہوگا جیسے
(3)فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ
وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور
پتھر ہیں۔(پ1،البقرۃ:24)
اگر تقوی کے بعد کسی چیز کا ذکر نہ ہو نہ رب تعالیٰ کا نہ دو زخ کا تو وہاں
دونوں معنی یعنی ڈرنا اور بچنا درست ہیں جیسے
(4) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ
بِالْغَیۡبِ
ہدایت ہے ان پر ہیز گار وں کے لئے جو غیب
پر ایمان رکھتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:2۔3)
(5) فَاصْبِرْ ؕۛ اِنَّ
الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾
پس صبر کرو بیشک انجام پر ہیز گاروں کے
لئے ہے ۔(پ12،ھود:49)
قرآن کی اصطلاح میں تقوی کی دو قسمیں ہیں تقویٰ بدن اور تقویٰ دل تقویٰ بدن
کا مدار اطا عت خدا اور رسول پر ہے ۔ فرماتا ہے :
(1) فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ
فَلَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۳۵﴾
تو جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ان
پر نہ خو ف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے ۔(پ8،الاعراف:35)
(2) الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا
وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
ولی اللہ وہ ہیں جوایمان لائے اور پرہیزگار
ی کرتے تھے ۔(پ11،یونس:63)
(3) اِنۡ تَتَّقُوا اللہَ یَجْعَلۡ
لَّکُمْ فُرْقَانًا
اگر اللہ کی اطاعت کر و گے تو تمہارے
لئے فرق بتا دے گا ۔ (پ9،الانفال:29)
دلی تقوی کا دار ومدار اس پر ہے کہ اللہ کے پیارو ں بلکہ جس چیز کو ان سے
نسبت ہوجاوے اس کی تعظیم وادب دل سے کر ے ۔ تبرکات کا بے ادب دلی پرہیز گار نہیں
ہو سکتا ۔ فرماتا ہے :
(1) وَ مَنۡ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ
اللہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقْوَی الْقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾
جو کوئی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے
تو یہ دل کی پرہیز گا ری سے ہے ۔(پ17،الحج:32)
(2) وَمَنۡ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ
اللہِ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ
اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم
کرے تو اس کیلئے اس کے رب کے ہاں بہتری ہے ۔(پ17،الحج:30)
یہ بھی قرآن کریم ہی سے پوچھو کہ شعا ئر
اللہ یعنی اللہ کی نشانیا ں کیا چیز ہیں۔فرماتا ہے :
(3)اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ
مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیۡتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ
اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ
صفا اور مروہ پہاڑ اللہ کی نشانیوں میں
سے ہیں تو جو کو ئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ اس پر گناہ نہیں کہ ان پہاڑوں کا
طواف کرے ۔(پ2،البقرۃ:158)
صفا اور مروہ وہ پہاڑ ہیں جن پر حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں سات بار چڑھیں
او راتریں ۔ اس اللہ والی کے قدم پڑجانے کی بر کت سے یہ دونوں پہاڑ شعائر اللہ بن
گئے اور تا قیامت حاجیوں پرا س پاک بی بی کی نقل اتارنے میں ان پر چڑھنا اور اتر
ناسات بار لازم ہوگیا ۔ بزرگو ں کے قدم لگ جانے سے وہ چیز شعائر اللہ بن جاتی ہے۔
فرماتا ہے :
(4)وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ
اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ
تم لوگ مقام ابراہیم کو جاء نماز بناؤ ۔(پ1،البقرۃ:125)
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ
معظمہ کی تعمیر کی وہ بھی حضرت خلیل علیہ السلام کی برکت سے شعائر اللہ بن گیااوراس
کی تعظیم ایسی لازم ہوگئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا سنت ہوگئے
کہ سجدہ میں سر اس پتھر کے سامنے جھکے۔
جب بزرگو ں کے قدم پڑجانے سے صفا مروہ اور مقام ابراہیم شعائر اللہ بن گئے
اور قابل تعظیم ہوگئے تو قبو ر انبیاء واولیاء جس میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں
یقینا شعائر اللہ ہیں اور ان کی تعظیم لازم ہے ۔
رب تعالیٰ فرما تاہے :
(5) فَقَالُوا ابْنُوۡا عَلَیۡہِمۡ
بُنْیَانًا ؕ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی
اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسْجِدًا ﴿۲۱﴾
پس لوگ بولے کہ ان اصحاب کہف پر کوئی
عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے اور وہ بولے جواس کام میں غالب رہے کہ ہم
تو ضرور ان پر مسجد بنائیں گے ۔(پ15،الکھف:21)
اصحاب کہف کے غار پر جو ان کا آرام گاہ ہے گذشتہ مسلمانوں نے مسجد بنائی
اور رب نے ان کے کام پر ناراضگی کا اظہار نہ کیا پتا لگا کہ وہ جگہ شعا ئر اللہ بن
گئی جس کی تعظیم ضروری ہوگئی۔
(6) وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا
لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیۡہَا خَیۡرٌ
اور قربانی کے جانور(ہدی)ہم نے تمہارے
لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے تمہارے لئے ان میں خیر ہے ۔(پ17،الحج:36)
جو جانور قربانی کے لئے یا کعبہ معظمہ کیلئے نامزد ہوجائے وہ شعائر اللہ ہے
اس کا احترام چاہیے جیسے قرآن کا جزدان اور کعبہ کا غلاف اور زمزم کاپانی اورمکہ
شریف کی زمین۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو رب یا رب کے پیاروں سے نسبت ہے ان سب کی تعظیم
ضروری ہے ۔فرماتا ہے :
(7) لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا
الْبَلَدِ ۙ﴿۱﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا
الْبَلَدِ ۙ﴿۲﴾
میں اس شہر مکہ معظمہ کی قسم فرماتا ہوں
حالانکہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو۔(پ30،البلد:1۔2)
(8) وَالتِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ
ۙ﴿۱﴾وَ طُوۡرِ سِیۡنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیۡنِ
ۙ﴿۳﴾
قسم ہے انجیر کی اور زیتو ن کی اورطور سینا
پہاڑ کی اور اس امانت والے شہر مکہ شریف کی۔(پ30،التین:1۔3)
(9) وَّادْخُلُوا الْبَابَ
سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ
اوربیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے
ہوئے گھسو اور کہو معافی دے، ہم بخش دیں گے۔(پ1،البقرۃ:58)
طور سینا پہاڑ اور مکہ معظمہ اس لئے عظمت والے بن گئے کہ طو ر کو کلیم اللہ
سے اور مکہ معظمہ کو حبیب اللہ علیہماالسلام سے نسبت ہوگئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے پیارو ں کی چیزیں شعائر اللہ ہیں جیسے قرآن شریف،
خانہ کعبہ، صفا مروہ پہاڑ ،مکہ معظمہ ،بیت المقدس، طورسینا،مقابر اولیاء اللہ وانبیاء
کرام ، آب زمزم وغیرہ اورشعائر اللہ کی تعظیم و تو قیر قرآنی فتوے سے دلی تقویٰ ہے
جو کوئی نمازی رو زہ دار تو ہو مگر اس کے دل میں تبرکات کی تعظیم نہ ہو وہ دلی پر
ہیز گا ر نہیں۔
ان آیات قرآنیہ سے معلوم ہو اکہ جہاں کہیں قرآن کریم میں تقویٰ کا ذکر ہے
وہاں یہ تقویٰ دلی یعنی متبر ک چیزوں کی تعظیم ضرورمراد ہے ۔ یہ آیات کریمہ تقویٰ
کی تمام آیات کی تفسیر ہیں۔جہاں تقوی کا ذکر ہو وہاں یہ قید ضروری ہے ۔
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ
اَصْوَاتَہُمْ عِنۡدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوۡبَہُمْ
لِلتَّقْوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾
بے شک جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ کے
نزدیک پست کرتے ہیں یہ وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیز گاری کے لئے پرکھ لیا ہے ان
کیلئے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔(پ26،الحجرات:3)
معلوم ہو اکہ مجلس میں حضور مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا
احترام تقویٰ ہے۔ کیونکہ یہ بھی شعائر اللہ ہے اور شعائر اللہ کی حرمت دلی تقویٰ ہے
۔ ایمان جڑ ہے اور تقوی اس کی شاخیں،پھل
وہی کھاسکتا ہے جو ان دونوں کی حفاظت کرے ۔ اسی طر ح بخشش کے پھل اسی کو نصیب ہوں
گے جوایمان اور تقویٰ دونوں کا حامل ہو۔
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home