Hajj Aur Umra (Urdu)
اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ
الْاَنْبِیَاء وَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنْ، وَاَصْحَابِهِ
الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ،وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّهُمْ وَتَبِعَهُمْ بِاِحْسَانٍ
اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنْ.
اَمَّا بَعْدُ! فاَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، بِسْمِ اللّٰهِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ
اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِیْلاً.صَدَقَ اللّٰهُ الْعَظِیْمْ.
عازمین حج وزیارت کے قافلے سوئے حرمین شریفین رواں دواں
ہیں،زندگی تمام جس کعبہ کی طرف رُخ کرکے نمازیں ادا کرتے رہے اب وہ خود اپنی
آنکھوں سے کعبۃ اللہ شریف کا دیدار کریں گے،جس نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں ؛اب ان کی بارگاہ عالی جاہ میں حاضر ہونے کا شرف
پائیں گے۔
انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ کسی بڑے دربار میں
حاضر ہونا چاہتا ہے تو غسل کرکے مکمل پاک وصاف ہوتاہے،عمدہ لباس زیب تن کرتا ہے
اور پھر دربار شاہی میں حاضر ہوتا ہے،ایسے ہی حجاج کرام'بادشاہوں کے بادشاہ، رب
العالمین کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور اس دربار عالی میں حاضر ہونے کے لئے
انہیں ماہ رمضان کے ذریعہ پاک وصاف کیا گیا،پہلے عشرہ میں بندہ کو رحمتوں سے بہرہ
ور کیا گیا،دوسرے عشرہ میں مغفرت کے ذریعہ گناہوں سے پاک وصاف کیا گیا،تیسرے عشرہ
میں جہنم سے رہائی کا پروانہ دیا گیا اور اسے شب قدر کی برکتوں سے مالامال کیا
گیا، بندۂ مومن نے قرآن کریم کی تلاوت وسماعت بھی کی ،جس سے دل کا زنگ دور ہوگیا
اور اس کا قلب روشن ومنور ہوگیا،روزہ کی برکت سے نفس مغلوب ہوگیا اور بندہ تربیت
اسلامی کامظہر اور تراویح ونوافل کی ادائی سے اخلاق حمیدہ کا پیکر بن گیا،اب تک وہ
گناہوں کے میل سے آلودہ تھا،اسے ماہ رمضان میں آب رحمت اورمغفرت کے پانی سے پاک
وصاف کردیا گیا،جب بندہ مکمل پاک وصاف ہوگیا تو اب اجازت ملتی ہے کہ رب العالمین
کے دربار میں حاضر ہوجاؤ!۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کااعلانِ حج
جن افراد کو اللہ تعالی حج کی سعادت
عطا فرمارہا ہے ،وہ بارگاہ الہی کے منتخب اور چنندہ ہیں ؛کیونکہ جب حضرت ابراہیم
خلیل اللہ علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی اور لوگوں میں حج کا اعلان
کیا ،قدرت الہی سے آپ کی آواز زمین وآسمان کے درمیان گونج اٹھی ،جسے زمین وآسمان
میں موجود ساری خلقت نے سنا،دنیاکے گوشہ گوشہ سے مخلوق خدا کاوہاں حاضرہونا اس کی
بین دلیل ہے،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین میں روایت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : لَمَّا
فَرَغَ إِبْرَاهِیْمُ مِنْ بِنَاءِ الْبَیْتِ قَالَ: رَبِّ قَدْ فَرَغْتُ.فَقَالَ
: أَذِّنْ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجّْ . قَالَ : رَبِّ وَمَا یَبْلُغُ صَوْتِیْ ؟
قَالَ : أَذِّنْ وَعَلَیَّ الْبَلَاغُ . قَالَ : رَبِّ کَیْفَ أَقُوْلُ ؟ قَالَ :
قُلْ : یَا أَیُّهَا النَّاسُ ! کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْحَجُّ ، حَجُّ الْبَیْتِ
الْعَتِیْقِ فَسَمِعَهُ مِنْ بَیْنِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ .أَلَا تَرَی
أَنَّهُمْ یَجِیْئُوْنَ مِنْ أَقْصَی الْأَرْضِ یُلَبُّوْنْ ؟.
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،آپ
نے فرمایا:جب حضرت ابراہیم علیہ السلام خانۂ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ
تعالی کے دربار میں معروضہ کیا:الہی!میں تعمیر سے فارغ ہوچکاہوں،تو اللہ تعالی نے
حکم فرمایا:"لوگوں میں حج کا اعلان کرو!"انہوں نے عرض کیا:الہی!میری
آواز کیسے پہنچے گی؟ارشاد فرمایا:آواز دینا تمہارا کام ہے اور پہنچانا ہمارے ذمہ
ہے۔ انہوں نے عرض کیا:پروردگار!میں کن کلمات سے اعلان کروں؟ارشاد فرمایا:اس طرح
کہو!"اے لوگو!تم پر حج فرض کیا گیا،معزز و مکرم گھرکعبۃ اللہ کا حج تم پر فرض
کیا گیا"تو زمین وآسمان کے درمیان جتنی مخلوق تھی سب نے آپ کی آوز سنی۔یہی
وجہ ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ حجاج زمین کے کونے کونے سے لبیک لبیک کہتے ہوئے حج کے
لئے آتے ہیں۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم،کتاب التفسیر،تفسیر سورۃ الحج،حدیث نمبر3421)
ندائے
خلیل پرلبیک کہنے والے ہی حج کے سعادتمند
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی آواز پرجن افراد
نے لبیک کہا تھا وہی افراد آج حج کی سعادت سے مشرف ہورہے ہیں،جیساکہ تفسیر در
منثور میں ہے:
وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِیْ حَاتِمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :
لَمَّا أَمَرَ اللهُ إِبْرَاهِیْمَ أَنْ یُّنَادِیَ فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ ،
صَعِدَ أَبَا قُبَیْسٍ فَوَضَعَ أِصْبَعَيْهِ فِیْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ نَادَی :
إِنَّ اللهَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَأَجِیْبُوْا رَبَّکُمْ . فَأَجَابُوْهُ
بِالتَّلْبِيَةِ فِیْ أَصْلَابِ الرِّجَالِ وَأرْحَامِ النِّسَاءِ ،
وَأَوَّلُ مَنْ أَجَابَهُ أَهْلُ الْیَمَنْ . فَلَیْسَ حَاجٌّ یَحُجُّ مِنْ
یَّوْمِئِذٍ إِلَی أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ؛ إِلَّا مَنْ کَانَ أَجَابَ
إِبْرَاهِیْمَ یَوْمَئِذٍ.
امام ابن ابو حاتم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے سیدنا عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت نقل کی ہے،آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالی
نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ لوگوں میں حج کا اعلان
کریں تو آپ ابو قُبیس نامی ایک پہاڑپر چڑھے اور اپنی مبارک انگلیوں کو اپنے کانوں
میں رکھا اور ندا(آواز) دی:"بیشک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے تو تم
اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کہو!"تو آپ کی اس ندا پر لوگوں نے مَردوں کی
پشتوں اور عورتوں کے شکموں سے تلبیہ پڑھتے ہوئے اس دعوت کو قبول کیا۔اور سب سے
پہلے یمن والوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا۔اور اس دن سے قیامت تک جو کوئی حاجی حج
کرتا ہے تو یہ وہی خوش نصیب ہے جس نے اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلا م کی دعوت
پر لبیک کہا تھا۔
(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور،سورۃ الحج،27)
جو بندگان خدا حج کا عظیم فریضہ ادا کررہے ہیں وہ اللہ تعالی
کے دربار سے منتخب اور چنندہ ہیں،اللہ تعالی جب اس شرف سے مشرف فرمارہا ہے تو
انہیں چاہئے کہ وہ حج کے مناسک بہتر طور پر سیکھ لیں،توبہ واستغفار کی کثرت
کریں،دل میں خوف وخشیت کی کیفیت میں مزید اضافہ کریں،جو حقوق واجب ہیں انہیں ادا
کریں،اگر کسی کی دل آزاری کی ہوتو ان سے معافی چاہیں،حج میں بطور خاص صبر وتحمل
،ایثار وقر بانی،عفوودرگزر سے کام لیں،ارشاد حق تعالی ہے:
فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ
وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ.
جو شخص حج کے مہینوں میں احرام باندھ کرحج کی نیت کرلے تو نہ
حج کے وقت بے حیائی کا کوئی کام کرے اور نہ کوئی گناہ کرے اور نہ ہی کسی سے جھگڑے۔
(سورۃ البقرۃ:197)
حج دین اسلام کا ایک مہتم بالشان رکن ہے، جو' ہر صاحب استطاعت
پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ
إِلَيْهِ سَبِیْلاً.
ترجمہ :اور اللہ تعالی کے لئے لوگوں پر کعبۃ اللہ کا حج
فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھے۔
(سورۃ آل عمران۔97)
حج اللہ تعالی کی رضا وخوشنودی کے
لئے کیا جائے،اس سےریاکاری ودکھاوا مقصود نہ ہو،حج اس لئے نہ کیا جائے کہ لوگ ہمیں
حاجی کہیں بلکہ اس نیت سے کیا جائے کہ اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم راضی ہوجائیں؛کیونکہ عبادات کے اند ر نیت کو روح کا درجہ دیاگیا ہے،جو
خوش نصیب افراد خُلوصِ نیت کے ساتھ حج ادا کرتے ہیں ان کے لئے حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے عظیم بشارت عطا فرمائی جیساکہ صحیح بخاری میں حدیث شریف ہے:
حَدَّثَنَا سَيارٌ اَبُو الْحَکَمِ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا
حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ
سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْ حَجَّ
لِلّٰهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ اُمُّهُ.
ترجمہ:حضرت ابو الحکم سیار رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے
ہیں:میں نے حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا،انہوں نے فرمایا:میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:جس نے اللہ کی رضا کے لئے حج کیا اور اس
نے نہ بے حیائی کا کوئی کا م کیا اور نہ فسق و فجور کا مرتکب ہوا ؛وہ اس طرح گنا
ہوں سے پاک ہوکر لوٹے گا گویا اس کو اس کی ماں نے ابھی جنم دیا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الحج،باب فضل الحج المبرور .حدیث نمبر1521)
حج کس پر فرض ہے ؟
جامع ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟
قَالَ:الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ .
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،
انہوں نے فرمایا:ایک صاحب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں
حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!حج کو کیا چیز واجب کرتی
ہے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:توشۂ سفر اور سواری ۔
(جامع الترمذی‘کتاب الحج‘ باب ما جاء فی إیجاب الحج بالزاد
والراحلۃ‘حدیث نمبر818)
فقہاء کرام نے اس کی یوں وضاحت کی ہے کہ جس شخص کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد اس
قدر مال ہوکہ وہ بیت اللہ شریف تک آنے جانے اور قیام کرنے کے اخراجات برداشت
کرسکتاہو اور سفرحج سے واپس آنے تک اہل وعیال کے نفقہ کا انتظام کرسکتاہوتووہ صاحب
استطاعت ہے اور اس پر حج فرض ہے ۔
زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے دیگر شرائط کے ساتھ نصاب کا مالک ہونا‘مال کابڑھنے
والاہونااور نصاب پرسال گزرنا‘شرط ہے،حج واجب ہونے کے لئے مال کے بڑھنے یا اس پر
سال گزرنے کی شرط نہیں اور نہ نصاب کی تکمیل لازمی ہے، محض بنیادی ضرورت اور اہل
وعیال کے نفقہ سے زائد اتنی رقم ہو کہ بیت اللہ شریف جانے آنے کے اخراجات برداشت
کرسکتاہوتو حج فرض ہوجاتاہے۔
رہائشی گھرکے علاوہ جائیداد ہو اور اس کو فروخت کرنے سے اتنی رقم حاصل ہوتی ہے کہ
وہ واپسی تک اہل وعیال کے نفقہ کا بندوبست کرکے حج کے مکمل اخراجات برداشت
کرسکتاہو توایسے شخص پرحج فرض ہے۔
فتاوی عالمگیری ، کتاب المناسک میں ہے :وتفسیر ملک الزاد والراحلة أن یکون له مال فاضل عن حاجته ،
وهو ما سوی مسکنه ولبسه وخدمه ، وأثاث بیته قدر ما یبلغه إلی مکة ذاهبا وجائیا
راکبا لا ماشیا وسوی ما یقضی به دیونه ویمسک لنفقة عیاله ، ومرمة مسکنه ونحوه إلی
وقت انصرافه۔۔۔ وفی التجرید: إن کان له دار لا یسکنها وعبد لا یستخدمه فعليه
أن یبیعه ویحج به .
حج
فرض ہونے کے باوجود تاخیر کرنا‘موجب غضب
بعض افراد حج فرض ہونے کے باوجود کسی شرعی عذر کے بغیر پس وپیش
کرتے ہیں،اور اگر قضاء آجائے تو ایک فرض کے تارک اورعظیم فضیلت سے ہمیشہ کے لئے
محروم رہ جاتے ہیں،جامع ترمذی میں روایت ہے:
عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَی بَيْتِ
اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ اَنْ يَمُوْتَ يَهُودِيًّا اَوْ
نَصْرَانِيًّا وَذَلِکَ اَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِی کِتَابِهِ:(وَلِلَّهِ عَلَی
النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً).
سیدنا
علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص زاد راہ اور ایسی سواری کا مالک ہو جو اسے بیت
اللہ شریف تک پہنچائے اور پھر وہ حج نہ کرے تو اس پراس بات کافرق نہیں کہ وہ یہودی
مرے یا نصرانی مرے ۔اسی سے متعلق اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایاہے:اور
اللہ تعالی کے لئے لوگوں پر کعبۃ اللہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت
رکھے۔(سورۂ آل عمران:97)
(جامع
الترمذی،ابواب الحج، باب ما جاء فی التغلیظ فی ترک الحج۔817)
جو
لوگ حج فرض ہونے کے باوجود حج ادا نہیں کرتے انہیں نصیحت کرتے ہوئے حضرت شیخ
الاسلام بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
حج میں کمال درجے کی خوشنودی الٰہی ہے چونکہ بطیبِخاطر مال خرچ کرنا اور
مصائب پر صبرکرنا مشکل کام تھا، اس لئے حق تعالیٰ نے عمر بھر میں ایک ہی حج مقرر
فرمایا؛ جس سے اہل ایمان کا امتحان مقصود ہے۔ بڑی افسوس کی بات ہوگی کہ ہم عمر بھر
دعوائے عبودیت کرتے رہیں اور تمام عمر میں ایک امتحانِ عبودیت جو مقرر کیا گیا ہے
اس سے بھی گریز کرجائیں!
اس سے تو یہ ثابت ہوگا کہ وہ دعوی زبانی ہی زبانی تھا۔ اسی وجہ
سے متعدد حدیثوں میں وارد ہے کہ جو حج نہیں کرے گا وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی'
اللہ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں۔
(مقاصد الاسلام،حصۂ چہارم،ص56)
حج‘ظاہری
وباطنی فوائد کا جامع
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم نے حج کے اس عظیم
فریضہ کی بابت خصوصی فضائل،برکات ومنافع بیان فرمائے، بعض افراد حج فرض ہونے کے
باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ حج پر زیادہ مصارف آتے ہیں،مال کثیر خرچ کریں تو شاید ہم
فقر وفاقہ سے دوچار ہوجائیں گے،ایسے افراد کو بھی حج کی ترغیب دلاتے ہوئے حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی حج کی برکت سے فقر وتنگدستی
کو دور فرمادیتا ہے اور گناہوں کو بھی معاف فرمادیتا ہے،فقر وتنگدستی کا دفع ہونا
ظاہری فائدہ ہے اور گناہوں کا معاف کیا جانا باطنی فائدہ ہے،اس طرح حج ظاہری
وباطنی ہر دو فوائد کا جامع ہے،جیساکہ جامع ترمذی،سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں
حدیث شریف ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَابِعُوا بَیْنَ الْحَجِّ
وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبَ کَمَا یَنْفِی
الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ،وَلَیْسَ لِلْحَجَّةِ
الْمَبْرُوْرَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ.
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :تم پے درپے حج وعمرہ کیا کرو کیونکہ حج وعمرہ فقر اورگناہوں کو ایسے
ہی دفع کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہا اور سونا چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔اور
مقبول حج کا ثواب تو جنت ہی ہے۔
(جامع الترمذی ، باب ما جاء فی ثواب الحج والعمرۃ، حدیث
نمبر:815۔ سنن النسائی ، فضل المتابعۃ بین الحج والعمرۃ، حدیث نمبر:2630۔سنن ابن
ماجہ، باب فضل الحج والعمرۃ، حدیث نمبر:2887)
حج کے اقسام
حج کی تین قسمیں ہیں:(1)حج قِران۔ (2) حج تمتع (3)حج
افراد۔
(1)حج قِران اس حج کو کہتے ہیں جس
میں میقات سے حج کے مہینوں میں عمرہ اور حج کی نیت کو ایک ہی احرام میں جمع کیا
جائے ۔
حج قران میں عمرہ کرنے کے بعد بال
نہیں نکالے جاتے بلکہ اسی طرح احرام کی حالت میں رہتے ہیں اور جب حج کے دن شروع
ہوتے ہیں تو اسی احرام سے حج کرتے ہیں۔
(2) حج تمتع اس حج کو کہتے ہیں جس
میں میقات سے حج کے مہینوں میں عمرہ کی نیت سے احرام باندھا جائے اور مناسک
عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھل جاتا ہے پھر جب حج کے دن شروع ہوتے ہیں اس وقت
دوبارہ حج کا احرام باندھ کر حج کیا جاتا ہے۔
اکثر افراد حج تمتع ہی کیا کرتے ہیں۔
(3) حج اِفراد اس حج کو کہتے ہیں جس میں صرف حج کی نیت
سے احرام باندھا جائے اور اس حج میں مناسک ادا کرنے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے
۔
اشہر حج(حج کے مہینے)
حج
کا فریضہ ‘زمان ومکان کے ساتھ خاص ہے،یعنی اس فریضہ کو مخصوص مقام اور خاص وقت پر
ادا کیا جاتا ہے،شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن حج کے مہینے
کہلاتے ہیں۔
صحیح بخاری شریف میں روایت ہے :
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَشْهُرُ
الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِی الْحِجَّةِ.
حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا: حج کے مہینے:شوال، ذی القعدہ اور ذی
الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔
(صحیح
بخاری شریف ،کتاب الحج ، بَاب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی الْحَجُّ أَشْہُرٌ
مَعْلُومَاتٌ )
حج
کے ایام:حج کے چھ (6)دن ہیں:
8/9/10/11/12اور13/ ذی الحجہ۔
حج کے فرائض
فرائض حج تین(3)ہیں:
(1)
احرام۔(2) وقوف عرفات۔(3) طواف زیارت۔
(1)احرام:اس
سے مراد دل سے حج کی نیت کرنا اور تلبیہ (لبیک)کہناہے۔
(2)وقوف
عرفات:9!ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد سے 10! ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان
میدان عرفات میں کچھ دیر کے لئے کیوں نہ ہو ٹھہرنا یہ وقوف، حج کا عظیم ترین رکن
ہے۔ زوال کے فوری بعد وقوف کا آغاز کرنا‘مسنون ہے۔
(3)طواف
زیارت:10!ذی الحجہ کی صبح سے 12!ذی الحجہ کے دن، سورج غروب ہونے سے پہلے تک کسی
بھی وقت بیت اللہ شریف کا طواف کرنا۔
ان
تینوں ارکان کو ترتیب وار ادا کرنا اور ہر رکن کو اس کے مخصوص مکان اور مقررہ وقت
میں ادا کرنا بھی ضروری ہے، ان تینوں فرائض میں سے اگر کوئی چیز چھوٹ جائے تو حج
نہیں ہوگا اور اس کی تلافی قربانی وغیرہ سے بھی نہیں ہوسکتی۔
واجبات
حج
واجبات حج چھ(6)ہیں:
(1)وقوف
مزدلفہ:دس (10)ذی الحجہ کو صبح صادق کے بعد مزدلفہ میں وقوف کرنا‘اس کا انتہائی
وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک ہے۔
(2)صفا
،مروہ کے درمیان سعی کرنا۔
(3)رمی
جمار:جمرات کو کنکریاں مارنا۔
(4)حج
قِران اور حج تمتع کرنے والوں کے لئے قربانی کرنا۔
(5)حلق:سر
کے بال منڈانا یا قصر:بال کتروانا۔
(6)آفاقی
(میقات سے باہر رہنے والے)کے حق میں مکہ مکرمہ سے واپسی کے موقع پر طواف وداع
کرنا۔
نوٹ:ان واجبات میں سے اگر کوئی واجب چھوٹ
جائے خواہ قصداً یا سہواً ترک کیا ہو تو ایک دم یعنی ایک بکرا قربانی کرنا واجب
ہے۔
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home